Monday, June 11, 2012

مسلم خاتون کی عصمت کی قدرو قیمت:

مدینہ میں یہود مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے۔ اُنھیں حجاب کا حکم اترنا اور مسلمان عورتوں کا با پردہ چلنا پھرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ مسلم خواتین کے حلقے میں فساد اور عریانی کے بیج بونے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ تاہم ابھی تک وہ اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

ایک روز ایک مسلم عورت یہودِ بنی قینقاع کے بازار سے سودا سلف لینے آئی۔ وہ ایک عفت مآب اور باحجاب خاتون تھی۔ وہ وہاں کے ایک یہودی سنار کے پاس گئی اور اس کی دکان میں بیٹھ گئی۔ یہود اس کی پاکیزگی اور با پردگی دیکھ کر آگ بگولا ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس خاتون کے دیدار اور لمس کی لذت سے اسی طرح لطف اٹھائیں اور کھلواڑ کریں جیسے وہ اسلام کی آمد سے پہلے کیا کرتے تھے۔یہود اس خاتون کو حجاب کھول دینے اور چہرہ دکھانے پر مجبور کرنے لگے لیکن اس نے ان کی ایک نہ مانی۔ وہ خاتون بیٹھی تھی کہ اس خبیث سنار نے موقع پا کر پچھلی جانب سے اس کی قمیص کا دامن کمر پر لٹکتے دوپٹے کے پلوّ سے باندھ دیا۔ خاتون کھڑی ہوئی تو پچھلی جانب سے قمیص کا دامن اُٹھ گیا اور پردہ کھل گیا۔ اس پر آس پاس کھڑے یہود نے زور کا قہقہہ لگایا۔ عفت مآب مسلم خاتون چیخی چلائی کہ تم مجھے قتل کر دیتے تو یہ میرے لیے بے پردہ ہونے سے کہیں بہتر تھا۔ ایک مسلمان بھی وہیں کہیں کھڑا تھا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو تلوار سونت کر یہودی سنار پر چڑھ دوڑا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ یہود نے مسلمان پر حملہ کر کے اسے شہید کر دیا۔

رسول اللہ ﷺ کو سانحے کا علم ہوا اور آپ کو بتایا گیا کہ یہود نے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ اور وہ مسلم خواتین کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے ہیں تو آپ نے اسلامی لشکر کے ہمراہ اُن کا محاصرہ کر لیا۔ اور جب تک یہود نے نبی ﷺ کا فیصلہ تسلیم نہ کر لیا، آپ پیچھے نہ ہٹے۔رسول اللہﷺ کا ارادہ تھا کہ یہود کو ان کے کیے کی عبرتناک سزا دی جائے تا کہ انھیں معلوم ہو کہ ایک پاکیزہ مسلم خاتون کی عصمت کی کیا قدرو قیمت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے ارادے پر عمل درآمد کرنا چاہاتو شیطانی فوج کا ایک سپاہی جسے مسلم خواتین کی عزت و حرمت کی کوئی پرواتھی نہ اسلام سے کوئی سرو کار، آپ کی طرف بڑھا۔یہ اس طبقے کا فرد تھا جس کا مطمح نظر اول و آخر اپنا پیٹ بھرنا اور سفلی جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرنا ہوتا ہے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھا اور بولا: "اے محمد(ﷺ)! میرے ہمدرد و ہم نوا یہود سے اچھا سلوک کرو۔" یہ لوگ عہد جاہلیت میں ابنِ ابی کے انصار تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیااور اس کا مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ ان لوگوں کے لیے عفو درگزرکا طالب تھا جو ایمان والوں میں فحاشی و عریانی کا فروغ چاہتے تھے۔منافقوں کا سردارپھر کھڑا ہوا اور درشتی سے بولا: "اے محمد(ﷺ)! یہود سے اچھا برتاؤ کرو۔" نبی کریم ﷺ نے عفت مآب مسلم خواتین کی غیرت کے مارے اس بار بھی اس سے رُخ پھیر لیا۔ اس پر منافق غصے میں آ گیا ۔ اس بد طینت نے نبی کریم ﷺ کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیااور اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا: "میرے ہمدردوں سے اچھا سلوک کرو، میرے ہم نواؤں سے اچھا برتاؤ کرو-" نبی کریم ﷺ کو سخت غصہ آیا۔ آپ نے مڑ کر اسے دیکھا اور بلند آواز سے کہا: "مجھے چھوڑ دو۔" منافق نہ مانا۔ وہ نبی ﷺ کو قسمیں دینے لگا کہ تمھیں یہود کے قتل کا حکم واپس لینا پڑے گا۔ بالآخر آپ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: "جاؤ وہ تمھارے ہیں۔"

رسول اللہ ﷺ نے یہود کے قتل کا فیصلہ تو واپس لے لیا لیکن انھیں مدینے سے جلاوطن کر دیا۔ جی ہاں! ایک مسلمان عورت کی عزت اسی تحفظ کی حق دار تھی۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " زندگی سے لطف اٹھائیے

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters