Thursday, May 31, 2012

مشرک کا المیہ:

شرک کرنے والے کا المیہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی باقی چیزیں دیکھی اور چھوئی جاتی ہیں اسی طرح وہ اپنے معبود کو دیکھنا اور چھونا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے وہ مزارات پر جا گرتا ہے۔ اب جو مزار جتنا زیادہ خوبصورت اور چمک والا ہو گا، وہ قبرپرستانہ ذہن کے لوگوں سے اتنا ہی زیادہ آباد اور پررونق ہو گا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان مقابر کو سجانے اور چمکانے دمکانے کی جتنی کاریگریاں ہو سکتی تھیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے عمل اور فرمان سےان سب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تا کہ "نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔"
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "اللہ کے رسول ﷺ نے قبر کو پختہ کرنے سے منع فرمایا اور اس بات سے بھی کہ اس پر مجاور بن کر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت تعمیر کی جائے۔"
ایک حدیث میں ہے: "رسول اللہ ﷺ نے قبر پر کچھ بھی لکھنے سے منع فرمایا ہے۔"
سنن نسائی کی حدیث میں ہے: "رسول اللہ ﷺ نے قبر پر عمارت بنانے اور زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔"
اسی طرح سنن بیہقی کی روایت میں ہے: "قبر پر (اس مٹی کے علاوہ) زیادہ مٹی نہ ڈالی جائے۔"

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "شاہراہ بہشت
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Wednesday, May 30, 2012

تخلیق آدم علیہ السلام احادیث کی روشنی میں:

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔ آدم علیہ السلام کی اولاد بھی (طرح طرح کی) مٹی سے پیدا ہوئی۔ ان میں سفید فام بھی ہیں، سرخ بھی اور سیاہ بھی اور ان کے درمیانی رنگوں کے بھی (اسی طرح) نیک اور بد، نرم خو اور سخت طبیعت اور درمیانی طبیعت والے۔" 

اللہ تعالیٰ نے آدمی علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا تاکہ ابلیس آپ علیہ السلام سے بڑائی کا دعویٰ نہ کرے۔ چنانچہ اس نے آپ کو انسانی صورت میں پیدافرمایا۔ آپ جمعہ کے دن جس کی مقدار چالیس سال تک تھی، مٹی کے بنے ہوئے ایک جسم کی صورت میں پڑے رہے۔ فرشتے پاس سے گزرتے تھے تو اس جسم کو دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔ ابلیس سب سے زیادہ خوف زدہ تھا۔وہ گزرتے وقت اسے ضرب لگاتا تو جسم سے اس طرح کی آواز آتی جس طرح مٹی کے بنے برتن سے کوئی چیز ٹکرائے تو آواز آتی ہے۔ اس لیے جب وہ کہتا تھا "ٹھیکری کی طرح بجنے والی مٹی سے۔" {ترجمہ سورۃ 55 آیۃ 14} تو کہتا: "تجھے کسی خاص مقصد سے پیدا کیا گیا ہے۔"وہ اس خاکی بدن میں منہ کی طرف سے داخل ہوا اور دوسری طرف سے نکل گیا اور اس نے فرشتوں سے کہا: "اس سے مت ڈرو، تمہارا رب صمد ہے لیکن یہ تو کھوکھلا ہے اگر مجھے اس پر قابو دیا گیا تو اسے ضرور تباہ کر دوں گا۔" 

جب وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے اس جسم میں روح ڈالنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے ارشاد فرمایا: "جب میں اس میں روح ڈال دوں تو اسے سجدہ کرنا۔" جب روح ڈال دی گئی تو وہ سر کی طرف سےداخل ہوئی۔ تبھی آدم علیہ السلام کو چھینک آگئی۔ فرشتوں نے کہا: کہیے: [الحمد للہ] "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں" انہوں نے فرمایا: [الحمدللہ]، اللہ نے فرمایا: [رحمک ربک] "تیرے رب نے تجھ پر رحمت فرمائی ہے۔" جب روح آنکھوں میں داخل ہوئی تو آپ علیہ السلام کو جنت کے پھل نظر آئے۔ جب روح پیٹ میں داخل ہوئی تو آپ کو کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ آپ جلدی سے جنت کے پھلوں کی طرف لپکے جب کہ روح ابھی آپ کی ٹانگوں میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "انسان تو جلد بازی کا بنا ہوا ہے" {ترجمہ سورۃ 21 آیۃ 37} (یعنی جلد بازی اس کی فطرت میں شامل ہے۔) 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایاتو جب تک چاہا، انہیں(بلاروح جسم کی حالت میں) پڑا رہنے دیا۔ ابلیس آپ کے ارد گرد چکر لگاتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ جسم کھوکھلا ہے تو اسے معلوم ہو گیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے گی۔" 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب آدم علیہ السلام میں روح ڈالی گئی اور روح سر تک پہنچی تو آپ کو چھینک آگئی۔ آپ نے فرمایا: [الحمد للہ رب العالمین] "تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔" تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [یرحمک اللہ] "اللہ تجھ پر رحمت فرمائےگا۔" 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ پھر فرمایا: جا کر ان فرشتوں کی جماعت کو سلام کہیے اور سنیے کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ تیرا اور تیری اولاد کا یہی سلام(کا طریقہ) ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: [السلام علیکم] فرشتوں نے کہا:[السلام علیک ورحمۃ اللہ ] یعنی جواب میں [رحمۃ اللہ] کا اضافہ ہو گیا۔ جنت میں جو بھی داخل ہو گا، وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر (یعنی ساٹھ ہاتھ قد کا) ہو گا۔ اس کے بعد اب تک مخلوق (کے قد کاٹھ) میں کمی ہوتی آئی ہے۔" 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ، وہ جمعہ کا دن ہے، اس دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اس دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اس دن انہیں اس سے نکالا گیا اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام جمعہ کے دن آخری گھڑی میں پیدا کیے گئے۔

بحوالہ: قصص الانبیاء، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

اللہ کا خوف اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ:

ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک سسرالی رشتہ دار آیا۔ اس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ مجھے بیت المال سے کچھ دیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا: تیرا ارادہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک خائن حکمران کی حیثیت سے پیش ہوں۔ بعد ازاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اُسےاپنے ذاتی مال سے دس ہزار (10000) درہم عطا فرمائے۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے مال سے کس قدر اجتناب کرتے تھے۔ اپنے رشتہ داروں اور اہل خانہ کو اپنے منصب اور خلافت کی مدد سے معمولی سا مال حاصل کرنے سے بھی روکتے تھے۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے اقرباء کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیتے تو خوب خوشحال رہتے اور بعد میں آنے والے بھی ایسا ہی عمل کرتے۔ اس طرح اللہ کا مال حکمرانوں کے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ جاتا۔ یہ قدرتی اور طبعی ضابطہ ہے، اسے مشاہدے کی تائید بھی حاصل ہے کہ جب ریاست کے مال پر حکمران ہاتھ صاف کرنے لگیں تو امت کا یہ مصلح فراوانی اور کشادگی کی زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف سرکاری خزانے کا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ امت کے تمام فروعی مصالح میں خلل واقع ہو جاتا ہے، خیانت کھل کر سامنے آجاتی ہے، پھر سارے کا سارا نظام ہی تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اور یہ امر متعین ہے کہ جو انسان جب تک لوگوں کے مال سے قناعت اور مکمل احتیاط کرتا ہے اور ان کے حقوق غصب نہیں کرتا، لوگ اس انسان سے محبت کرتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اور جب ایسا شخص حکمران ہو رعایا اس پر مہربان ہو جاتی ہے اور اس کی اطاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ حکمران انھیں جان سے بھی بڑھ کر پیارا ہو جاتا ہے۔

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Tuesday, May 29, 2012

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا رعب:

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے اند آنے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت نبی ﷺ کے پاس کچھ قریشی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ اتنی اونچی آواز میں گفتگو کر رہی تھیں کہ ان کی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے بلند ہو رہی تھیں۔ جب ان عورتوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو وہ جلدی سےحجاب میں چلی گئیں۔ نبی ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حاضری کی اجازت عطافرمائی۔ وہ آئےتو نبی ﷺ مسکرا رہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ آپ ﷺ کو اسی طرح خوش و خرم رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "مجھے ان عورتوں پر تعجب ہےجو ابھی میرے پاس بیٹھی تھیں۔ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے،پھر وہ عورتوں سے مخاطب ہوئےاور کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ ﷺ سے نہیں ڈرتی؟ عورتوں نے جواب دیا : ہاں، اس لیے کہ آپ تندخو اور سخت غصے والے ہیں۔ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: "خطاب کے بیٹے! کوئی اور بات کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان اس راستے پرہرگز نہیں چلتا جس راستے پر تم چلتے ہو(تمہیں دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے)۔"

اس حدیث میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی گئی ہےکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مبنی بر حق اقدامات کی وجہ سے شیطان ان تک رسائی میں ناکام رہتا ہے۔

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

ابو مسلم خولانی کی دعا:

ابو مسلم خولانی یمن کے رہنے والے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کیا مگر آپ ﷺ کی زیارت نہ کرسکے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ طیبہ تشریف لائے۔ اپنے دور کے نہایت عبادت گزار مجاہد اور مستجاب الدعوات تھے۔ ایک مرتبہ یہ مسلمانوں کی فوج کے ساتھ دجلہ کے کنارے کھڑے تھے۔ مسلمانوں نے دجلہ عبور کیا تو دریا میں طغیانی کے باعث نہ صرف کشتیوں کو نقصان پہنچابلکہ بہت سارا سامان بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ دجلہ کی لہریں مختلف اشیاء کنارے پر پھینک رہی تھیں۔ سیدنا ابو مسلم خولانی ؒ فوج سے مخاطب ہوئے اور کہا:
ہم اللہ کے بندے اور اس کے سپاہی ہیں اس کے دین کے دفاع کے لیے نکلے ہیں۔ ہمارا رب ہم پر مہربان ہے۔ وہ ہماری دعاؤں کو یقیناً سنتا ہے۔ سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر تم میں سے کسی کا کوئی سامان گم ہو گیا ہوتو مجھے بتائے میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں۔ ایک شخص کھڑا ہو ا اور عرض کیا: میرا تھیلا گم ہو گیا ہے۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے اور پھر اس شخص سے فرمایا :میرے پیچھے آؤ۔ وہ شخص آپ کے پیچھے گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا تھیلا کسی چیز کے ساتھ اٹکا ہوا دریا کے کنارے پڑا تھا۔اس نے اپنے تھیلے کو اٹھایا اور چلتا بنا۔ اللہ رب العزت نے اپنے موحد مجاہد کی دعا کو قبول فرما لیا تھا۔

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

شاہِ ایران، ذوالفقار علی بھٹو اور سونے کا گیٹ:

یہاں سے دائیں جانب بیرونی طرف ایک سونے کا دروازہ بھی نصب ہے۔ لوگ یہاں بھی بیرونی جنگلے کے ساتھ ہی چمٹ چمٹ کر آہ و زاریاں کر رہے تھے۔ میں کبھی تو اس دروازے کو دیکھتا تھا اور اس کے ساتھ لگی ہوئی سلیٹ کو دیکھتا تھا، جس کے مطابق اسے شاہ ایران نے بنوایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے یہاں نصب کیا تھا۔ ۔ ۔ شاہ ایران کو پوری دنیا میں کہیں جائے پناہ نہ ملی، وہ حکومت ایران سے جان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد دنیا میں مارا مارا پھرتا رہا اور آخر کار سسک سسک کر کینسر سے مر گیا۔ تو رہا بے نظیر بھٹو کا والد ذوالفقارعلی بھٹو، تو وہ مولوی مشتاق کی عدالت میں پھانسی کے پھندے پر چڑھ گیا۔ ۔ ۔ میں یہ غور کرتا تھا اور لوگوں کو یہاں روتے دیکھ کر سوچتا تھا ۔ ۔ ۔ کہ یا اللہ! یہ کیا چاہتے ہیں؟ شاہ ایران والا انجام چاہتے ہیں یا کہ بھٹو جیسا حال چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ بہرحال پھر دربار سے ہوتے ہوئے بائیں جانب کا رخ گیا تو دربار کے سامنے وسیع و عریض اور خوبصورت مسجد دکھائی دی۔دربار اور مسجد کا ایک ہی صحن ہے۔ مختلف جگہوں سے آئے چھوٹے درباروں کے گدی نشین کعبے کی طرف پشت کئےہوئے ۔ ۔ ۔ اور دربار کی برف منہ کیے ہوئے براجمان تھے۔ ہر ولی کے گرد مریدوں کا جم گھٹا تھا، مٹھائیوں کے ڈبے سامنے پڑے تھے، ختم پڑھا جا رہا تھا اور تبرک تقسیم کیا جا رہا تھا۔ ذرا آگے بڑھے تو ایک اور حضرت بڑے جاہ و حشمت سے آتے دکھائی دیئے۔ مریدوں نے مسند بچھائی ، حضرت براجمان ہو گئے، دو مرید دائیں بائیں دستی پنکھے سے ہوا دینے لگے اور دو سامنے مؤدبانہ انداز میں بیٹھ گئے۔ حضرت اب دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ ۔ ۔ کہ کون نیا مرید بننے کے لیے آتا ہے؟ چنانچہ لوگ آ کر بیٹھنا شرع ہو گئے۔ مرید حضرت کی شان بیان کرتے جاتے تھے، نئے بننے والے متاثر ہو کر حضرت کے آستانے کا پتا پوچھ رہے تھے، کثیر تعداد میں اپنی اپنی محفل سجا کر بیٹھے تھے۔ اب میں سوچنے لگا کہ مسجد تو مسلمانوں کی عبادت گاہ ہوتی ہے اور یہ داتا دربار بھی عبادت گاہ بن چکا ہے اور صاحب درباربزرگ کو کہا بھی داتا جاتا ہے اور یہ مسجد جو میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں تو یہ اس صاحب دربار بزرگ "داتا کی مسجد" مشہور ہے۔ دونوں کا صحن بھی ایک ہے۔ ایک طرف یہ دیکھ رہا ہوں اور دوسری طرف جب اپنے سچے نبی ﷺ کے فرامین کی طرف دیکھتا ہوں تو منظر کچھ اور ہی نظر آتا ہے، حضرت جندب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو وفات پانے سے پانچ دن قبل یہ کہتے ہوئے سنا: "خبردار! تم سے پہلے جو لوگ تھے انھوں نے اپنے نبیوں اور نیک بزرگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا ۔ خبردار! تم قبروں کو عبادت گاہ نہ بنانا، میں تمہیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہوں۔"

ہم نے یہاں دعوت کا کام بھی جاری رکھا ، ایک نوجوان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے الٹی سیدھی باتیں کر کے بھاگنے ہی کی کوشش کی۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "شاہراہ بہشت

مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

انسان کی آزمائش بقدر استطاعت:

اللہ تعالٰی نے ہر انسان کے حق میں اتنی ہی مصیبتیں اور مشکلات لکھی ہیں، جتنی اس کی استطاعت اور ایمانی قوت ہے۔ یہ ناانصافی ہوتی اگر ہر کسی کو ایک ہی جیسی مصیبت سے آزمایا جاتا اور ناکامیابی پر اسی طرح سزا دی جاتی، کیونکہ کچھ لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ صبر کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالٰی کا انصاف اور اپنی مخلوق پر مہربانی، شفقت اور رحم دلی ہے، جس کی بدولت وہ اپنے بندوں کو ان کی استطاعت کے مطابق آزماتا ہے اور اُسی کے مطابق ان کی نافرمانی کے بدلے میں انھیں سزا بھی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بار بار اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

"اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی کرے اس کا وبال بھی اس پر ہے۔"

اللہ تعالٰی کے اس انصاف پسندانہ قانون کے تحت عام علماء کرام نے صبر کو فرض قرار دیا ہے ۔ اور جب یہ بات طے شدہ ہے کہ حادثات آدمی کو اُس کی استظاعت کے مطابق ہی متاثر کرتے ہیں، تب تو اس شخص میں ضرورہی استظاعت ہو گی جس سے کہ وہ سختیوں کو برداشت کر سکے اور صبر کرنے والا بن جائے۔ اِس کے بعد اُس پر حرام ہے کہ وہ بے صبری کا مظاہرہ کرے، یا انتہائی جوش و غصہ کا مظاہرہ کرے، یا ایسی کوئی حرکت کرے یا بات کہے جس سے اللہ تعالیٰ کےفیصلہ پر ناپسندیدگی ظاہر ہو رہی ہو، جیسا کہ ہمبی دردناک چیخ، کپڑوں کا پھاڑنا، گال پیٹنا وغیرہ۔ جزاء کے دن بندے سے اس کی ہر اُس حرکت پر پوچھ گچھ ہو گی جس سے منع کیا گیا تھا اور اس سے بچنے کی بندے میں استطاعت تھی۔

بحوالہ: دنیوی مصائب و مشکلات، مطبوعہ توحید پبلیکیشنز
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Monday, May 28, 2012

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کیلئے دعائے نبوی:

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح خیبر سے ایک روز پہلے رسول اللہﷺ نے فرمایا: "کل میں جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ و رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اس کے ہاتھوں فتح عطا فرمائے گا۔"
وہ رات لوگوں نے یہ باتیں کر تے گزاری کہ دیکھتے ہیں کل جھنڈا کس خوش نصیب کو ملتا ہے۔ صبح ہوئی تو تمام لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ دریافت فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابۂ کرام نے بتایا: اللہ کےرسول! اُن کی آنکھیں خراب ہیں۔ فرمایا: اُنھیں بلواؤ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا، ان کے لیے دعا فرمائی تو وہ بھلے چنگے ہو گئے۔ گویا کبھی تکلیف تھی ہی نہیں۔ تب آپ نے اُنھیں علم عطا فرمایا۔
انہوں نے عرض کیا : "اللہ کے رسول! کیا میں اُن سے اُس وقت تک جنگ کرتا رہوں جب تک وہ ہمارے جیسے نہیں ہو جاتے"
فرمایا: "تم اطمینان سےجاؤ۔ جب اُن کے ہاں جا اترو تو انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ تعالی کے کیا کیا حقوق اُن پر عائد ہوتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر ایک شخص کو بھی اللہ تعالٰی نے تمہارے ذریعے ہدایت دے دی تو یہ تمہارے لئے اِس سے کہیں بہتر ہو گا کہ تمہیں سرخ اونٹ (قدیم عرب باشندوں کا سب سے قیمتی سرمایہ) مل جائیں۔"

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

آزمائش اور سزا میں فرق و امتیاز:

اگر مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں ہیں، جیسے جہاد میں زخمی ہونا، ہجرت کے دوران پیسوں کا گم ہو جانا، اسلام قبول کرنے کی وجہ سے نوکری کا کھو جانا، یا پھر کسی سنت رسول ﷺ پر عمل کرنے، جیسے داڑھی رکھنے اور تہبند، پتلون ، پاجامہ کے ٹخنوں سے اوپر رکھنے وغیرہ کا نتیجہ ہوں تو اس طرح کے مصائب و مشکلات ایک آزمائش ہیں، اور جو کوئی بھی صبر کے ساتھ ان چیزوں کو برداشت کرتا ہے اس اجر ملے گا اور جوکوئی اس پر ناراضی و غصے کا مظاہرہ کرے گا تو وہ اللہ کے غضب و غصہ کو دعوت دے گا۔

اگر مصیبتیں بدکاریوں کی وجہ سے ہیں، جیسے شراب نوشی اور منشیات کے استعمال سے بیماریوں میں مبتلا ہونا وغیرہ، اس طرح کی مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سزا ہے۔ ہر گناہ کے کام سے بچنے کی کوشش کریں اور اگر کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ کی طرف متوجہ ہو کر توبہ کریں اور جلد اس سے معافی مانگ لیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب بہت سخت اور ناقابل برداشت ہے۔

اگر کوئی مصیبت نہ کسی اچھے کام کا نتیجہ لگتی ہے اور نہ ہی برے کام کا ، جیسے کسی قسم کا مرض یا بیماری، بچے کا کھو جانا، کاروبار میں نقصان وغیرہ، اگرا ایسا ہے تو آپ کو اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہیے ۔ اگر آپ کسی بھی طرح سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلاء ہیں تو یہ مصیبت آپ کے لئے ایک سزا اور برائیوں کو ترک کرنے کی یاد دہانی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ تعالی نے یہ مصیبت اس لئے نازل فرمائی ہے تا کہ وہ آپ کے صبر کو آزما سکے

بحوالہ: دنیوی مصائب و مشکلات، مطبوعہ توحید پبلیکیشنز
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

شیطان آدمی کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے:

حضرت ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی نے کہا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے۔ میں رات کو آپ ﷺ کی زیارت کے لیے گئی اور آپ ﷺ سے باتیں کر کے واپس آنے لگی۔ آپ ﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لیے ہو لیے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں تھا۔ اتنے میں دو انصار کے آدمی نمودار ہوئے۔ انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو تیزی کیساتھ آگے بڑھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ٹھہرو، میرے ساتھ صفیہ ؓ ہے۔ وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں "خیال فاسد" یا فرمایا "کوئی بات" نہ ڈال دے۔
یہ حدیث صحیحین میں ہے ۔ ابو سلیمان خطابی نے کہا کہ اس حدیث میں فقہی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر ایسے امر مکروہ سے بچنا مستحب ہے جس سے بد گمانیاں پیدا ہوں اور دلوں میں خطرے گزریں۔ اور چاہیے کہ عیب سے اپنی برأت ظاہر کر کے لوگوں کے طعن سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسی بارے میں امام شافعی ؒ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کا خوف ہوا کہ کہیں ان دونوں انصاریوں کے دل میں کوئی خیال ناقص نہ آئے جس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائیں اور یہ آپ ﷺ کا فرمانا ان کی بہتری کے لئے تھا ۔ کچھ اپنے نفع کے واسطے نہیں۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے علامہ ابن جوزیؒ کی کتاب "تلبیسِ اِبلیس
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

خلیفۃ المسلمین اور نان و نفقہ:

ایک مرتبہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے کوئی میٹھا پکوان کھانے کا شوق ظاہر کیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یاد رہے کہ خلافت سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انتہائی کامیاب تاجر تھے اور ان کے ہاں بڑی آسودگی اور فارغ البالی تھی۔ خلافت کی مصروفیات کی وجہ سے چونکہ وہ تجارت میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اس لئے بیت المال سے صرف اتنا لیتے تھے جس سے بمشکل گزارہ ہو سکے۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کہنے لگیں: میں روزمرہ کے اخراجات میں کفایت شعاری کر کے اتنے پیسے بچا لوں گی کہ ہم کوئی میٹھی چیز تیار کر سکیں۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں تم ایسا کر سکتی ہو۔ کافی دن گزرنے کے بعد کچھ پیسے جمع ہوگئے جس سے کوئی میٹھی چیز تیار کی جا سکتی ہو۔ جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتا چلا تو انہوں نے وہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی اور بیت المال کے خازن سے فرمایا : میرے وظیفہ سے اس رقم کے برابر کٹوتی کر لی جائے کیونکہ اس سے کم رقم میں بھی گزارا ہو سکتا ہے۔

بحوالہ: سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Sunday, May 27, 2012

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کیلئے دعائے نبوی:

رسول اللہ ﷺ نے ایک نازک موقع پر دعا فرمائی تھی:
"الٰہی! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو آدمی تجھے زیادہ پسند ہے اُس کے ذریعے سے اسلام کو عزت عطا فرما۔"
اللہ تعالٰی نے آپ کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ‘فاروق’ کا خطاب دیا۔
امام ابن اسحاقؒ نے اپنی بے مثال کتاب ‘سیرت نبوی’ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ بیان درج کیا ہے کہ "عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام فتح کی علامت تھا ۔ اُن کی ہجرت، نصرت اور حکومت سراسر رحمت تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے پہلے ہم کعبہ میں نمازنہیں پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو قریش سے لڑ بھڑ کر کعبہ میں نماز پڑھی۔ تب ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی۔"
فتوحات اسلامیہ کا بیشتر سلسلہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پھیلا۔ فارس، فلسطین، شام اور مصر کے علاقے اُنہی کے دورِ حکومت میں فتح ہوئے۔ یوں خلافت اسلامیہ کا رقبہ سلطنت روم و فارس سے بڑھ گیا۔

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

دعاؤں کی قبولیت:

لوگ عام طور پر اس وقت کثرت سے دعائیں مانگتے ہیں جب انھیں کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے اور بلا شبہ یہ فطرت کا تقاضہ ہے مگر حدیث شریف میں جو تعلیمات ہمیں دی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ مصیبتوں اور تکلیفوں میں اللہ اس کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہیے کہ خوشحالی کے وقت کثرت سے دعا کیا کرے۔"

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, May 26, 2012

سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کا اولیں خطبۂ خلافت:

"حاضرین کرام! مجھے تمہارا سربراہ بنایا گیا ہے۔ میں خود کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا۔ اگر میں درست کام کروں تو میری مدد کرنا۔ اگر مجھ سے غلطی ہو جائے تو میری اصلاح کرنا۔ سچ امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور ہے حتی کہ میں اس کا حق اسے دلا دوں، ان شاء اللہ۔ تمہارا طاقتور شخص میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ میں اس سے مظلوم کا حق وصول کر لوں، ان شاء اللہ۔ جب کوئی قوم جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑ لیتی ہے تواللہ اسے ذلیل کر دیتا ہے۔ جس قوم میں بے حیائی عام ہو جائے اللہ تعالٰی ان پر عمومی عذاب نازل کر دیتا ہے۔ میری اطاعت اس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتا رہوں۔ جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں۔ اٹھو نماز ادا کرو، اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے۔"

بحوالہ: سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »
free counters