Saturday, June 16, 2012

جب کوئی چارۂ کار نہیں توگزارہ کرو:

"جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" یہ بات میں نے ایک نوجوان سے کہی جو ذیابیطس کا مریض تھا۔ وہ پھیکی چائے پی رہا تھا اور اپنے حال پر افسوس کر رہا تھا۔ میں نے کہا: "چائے نوشی کے دوران تمھارے افسوس کرنے یا غمزدہ ہونے سے اس بیماری کو کوئی فائدہ ہو گا؟" 

وہ بولا: "نہیں۔" اس پر میں نے کہا: "جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" 

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ دنیا کے سارے معاملات ہماری مرضی کے مطابق ہوں۔ ایسی صورتِ حال کا سامنا ہمیں اکثر کرنا پڑتا ہے۔ آپ اپنی من پسند ملازمت کے لیے انٹرویو دینے گئے۔ وہاں آپ کو قبول نہیں کیا گیا۔ آپ نے دوسری جگہ رجوع کیا، وہاں آپ کو رکھ لیا گیا، اس پرابلم کا حل کیا ہے؟ یہی کہ "جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" 

آپ نے کسی لڑکی کو شادی کا پیغام بھیجا، لڑکی نے انکار کر دیا اور کسی اور کا پیغام قبول کر لیا۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟ یہی نہ کہ "جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" بہتر ہے کہ اس کا خیال دل سے نکال کر کسی اور لڑکی سے شادی کر لیں۔ دنیا میں لڑکیوں کی کمی ہے کیا؟ 

بہت سے لوگوں کو ان مسائل کا یہ دو ٹوک حل پسند نہیں آتا۔ وہ ان مسائل کا حل دائمی افسردگی، ہمیشہ کے افسوس اور ہر ایرے غیرے سے شکوہ شکایت کی صورت میں نکالتے ہیں۔ لیکن یہ انداز نہ تو اُنھیں کھوئی ہوئی اشیاء دلاتا ہے اور نہ قسمت کے لکھے کو تبدیل کرتا ہے۔ میرے نزدیک زندگی کے ان مسائل کا سوائے اس کے کوئی حل نہیں کہ آپ جو چاہتے ہیں وہ نہیں ہوتا تو وہ چاہنے لگ جائیں جو ہو سکتا ہے۔ عقل مند انسان وہی ہے جو اپنا مزاج حالات کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، یہاں تک کہ وہ صورتِ حال کی تبدیلی پر قادر ہو جائے۔ 

میرا ایک دوست جو ایک مسجد کی تعمیراتی سرگرمیوں کا نگران تھا، اُس نے مجھے بتایا کہ دورانِ تعمیر رقم کی کمی کے باعث انھوں نے شہر کے ایک نامی گرامی تاجر سے مدد طلب کی۔ وہ اس کے ہاں گئے۔ تاجر نے انھیں بٹھایا۔ خاطر خواہ تواضع کی۔ انھوں نے مدعا کہا تو تاجر نے حسب توفیق مدد کی، پھر وہ جیب سے ایک دوانکال کر لینے لگا۔ ہم نے کہا: "خیریت گزری؟ کیا بات ہے؟" تاجر نے کہا "کچھ نہیں۔ یہ نیند کی گولیاں ہیں۔ دس سال ہو گئے ہیں، ان کے بغیر مجھے نیند نہیں آتی۔"

ہم نے اس کے لیے دعا کی اور سلام کر کے نکل آئے۔ راستے میں سڑک کی تعمیر کا کام جاری تھا۔ وہاں انھوں نے بڑے بڑے جنریٹروں کے ذریعے سے سرچ لائٹیں جلا رکھی تھیں۔ جنریٹروں کا شور دور دور تک سنائی دیتا تھا۔ یہ سب معمول کی بات تھی ۔ عجیب بات یہ تھی کہ جنریٹروں کا غریب چوکیدار اخبارکے چند کاغذ زمین پر بچھائے مزے سے سور رہا تھا۔ جی ہاں! زندگی گزاریے۔ پریشان ہونے کا وقت نہیں۔ ضروریاتِ زندگی میں سے جو کچھ مل گیا ہے۔ اللہ کا شکر کرتے ہوئے اُسے استعمال میں لائیے اور جو نہیں ملا، اُس پر کڑھناچھوڑیے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " زندگی سے لطف اٹھائیے

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters