Sunday, June 17, 2012

چٹا گانگ میں "کچھوا" کی پرستش کے مناظر:

جس طرح پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کراچی شہر ہے، اسی طرح بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ساحلی شہر اور بندرگاہ چٹا گانگ ہے۔ جب راقم بنگلہ دیش کے دورے پر گیا تو چٹا گانگ میں احباب ایک درگاہ پر لے گئے۔ اس درگاہ میں مدفون بزرگ کا نام بایزید بسطامی ہے۔ یہ چٹاگانگ شہر کی ایک بڑی درگاہ ہے۔ہم جب اس میں داخل ہوئے تو اس کے بڑے صحن میں لوگ قطار میں بیٹھے تھے ۔ میں نے سوچا کہ یہ سب وضو کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں مگر جب قریب ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بڑے بڑے کچھوے جنھیں ہمارے ہاں بعض لوگ "پلیتر" بھی کہتے ہیں، وہ تالاب کے کنارے تیر رہے تھے اور لوگ انھیں طرح طرح کے کھانے کھلا رہے تھے۔

یہ منظر دیکھنے کے لیے ہم یہاں رک گئے، اب کیا دیکھتے ہیں، ایک عورت جس کے ماتھے پر تلک لگا ہواتھا، وہ بھی کچھوے کو ڈبل روٹی کھلا رہی تھی۔ اس کی پشت پر محبت اور پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی اور تالاب کے پانی سے چلو بھر کر پلیتر کے اوپر ڈال رہی تھی۔ وہ پانی جب پھسل کر دوبارہ تالاب میں گرتا تو وہ وہیں سے دوبارہ چلو بھرتی اور اسے اپنے منہ پر ڈال لیتی۔ یہ پانی اس کے ہاں متبرک پانی تھا۔ اس کا منہ اب پوتر (پاک) ہو چکا تھا۔ غرض تلک لگائے ہوئے ہندو عورت اگر یہ سوانگ رچا رہی تھی تو مسلمان عورتیں بھی ایسا ہی کر رہی تھیں کہ ان کی تو پھر یہ اپنی درگاہ تھی۔ ایک مسلمان عورت اس پانی کے چھینٹے اپنی آنکھوں پر مار کر آنکھوں کی بینائی تیز کرنے کی کوشش کر رہی تھی، اپنے بچوں کے ساتھ بھی وہ یہی عمل دہرا رہی تھی، کچھوؤں کو کھلا رہی تھی اور ان کا تبرک حاصل کر رہی تھی۔ بدھ متوں کا ایک جوڑا بھی یہاں آیاہوا تھا، یہ جوڑا کچھوؤں کے سامنے سے پانی اٹھاتا اور چلو بھر کر پی جاتا۔ غرض یہ کہ یہ ایک ایسی درگاہ تھی کہ جس کے کچھوؤں کی پوجا ہو رہی تھی اور نام نہاد مسلمان، ہندو اور بدھ سب ہی اس درگاہ کے کچھوؤں کی پوجا میں مصروف تھے۔ 

یہ تینوں جب کچھوؤں سے پیار کر لیتے ، انھیں کھلا پلا لیتے ، ان کے منہ سے ڈبل روٹی لگا کر بطور تبرک کھا لیتے اور ان کے سامنے سے پانی پی لیتے تب اٹھ کر حضرت کی زیارت کو چل دیتے۔اب حضرت با یزید بسطامی کی قبر تک جانے کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ ہندو کا اپنا طریقہ ہے، بدھ مت کا اپنا انداز ہے، جبکہ مسلمان کچھوؤں کے تالاب کے اس متبرک پانی سے وضو کر لیتا ہے۔ ایک آدمی کچھوؤں کے درمیان پانی سے وضو کر رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ وضو کس قدر پاکیزہ عمل ہے مگر یہ کتنے گندے پانی سے کیا جا رہا ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی باتھ روم میں نماز پڑھنا شروع کر دے ، کچھوؤں کے تالاب سے وضو کرنا ایسے تھا جیسے کوئی بھنا ہوا تیتر اور گرم گرم حلوہ لیٹرین میں بیٹھ کر کھانا شروع کر دے۔

اب یہ شخص وضو کرنے کے بعد ہندوؤں اور بدھوں کے درمیان سے اٹھا اور درگاہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگا کہ اس ظالم کو بیت اللہ کا رخ بھی بھول گیا۔ غرض قبر کو قبلہ بنا کر اس نے نماز پڑھ ڈالی اور پھر ہندوؤں، بدھ متوں اور دوسرے لوگوں کی بھیڑ میں چھوٹی سی پہاڑی پر بنی ہوئی درگاہ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters