Saturday, June 9, 2012

پہاڑوں کی میخیں زمین میں گڑی ہوئی ہیں:

روئے زمین کی کئی یو نیورسٹیوں میں Earth (زمین) نامی کتاب ایک بنیادی حوالے کی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے دو مصنفین میں سے ایک پروفیسر ایمریطس فرینک پریس ہیں۔ وہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے سائنسی مشیر تھے اور 12 سال نیشنل اکیڈمی آف سائنسز واشنگٹن ڈی سی کے صدر رہے۔ ان کی کتاب کہتی ہے کہ پہاڑوں کے نیچے ان کی جڑیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہ جڑیں زمین کی گہرائی میں اتری ہوئی ہیں اور پہاڑوں کے لیے ان کی حیثیت یوں ہے جیسے میخیں یا کھونٹے (Pegs) گڑے ہوں جو انھیں مضبوطی اور استحکام عطا کرتے ہیں۔ لیکن اسلام کی الہامی کتاب میں پہاڑوں کے متعلق یہ بات صدیوں پہلے بتا دی گئی کہ وہ میخوں کی طرح زمین میں گڑے ہیں، چنانچہ پہاڑوں کی مضبوطی اور "ثابت قدمی" کے سلسلے میں ارشاد باری تعالی ہے: "کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو کھونٹے نہیں بنایا؟" {ترجمہ سورۃ 78 آیۃ 6-7}۔ 

موجودہ ارضی سائنس نے ثابت کیا ہے کہ پہاڑ سطح زمین کے نیچے گہری جڑیں رکھتے ہیں اور یہ جڑیں سطح زمین پر ان کی بلندی سےکئی گنا زیادہ گہرائی میں اتری ہوئی ہیں، لہٰذا پہاڑوں کی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے مناسب ترین لفظ "کھونٹے" (Pegs) ہے کیونکہ ٹھیک طور گاڑے ہوئے کھونٹے کا بیشتر حصہ بھی زمین کی سطح کے نیچے ہوتا ہے۔سائنس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پہاڑوں کے گہری جڑیں رکھنے کا نظریہ صرف ڈیڑھ صدی پہلے 1865ء میں اسٹرانومر رائل (برطانوی شاہی فلکیات دان) سر جارج ایئری نے پیش کیا تھا جبکہ قرآن نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں بتا دی تھی۔ پہاڑ قشر(Crust of The Earth) کو مستحکم بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ زمین کے ہلنے کو روکتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: "اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے ہیں تا کہ وہ تمھیں ہلا نہ دے۔" {ترجمہ سورۃ 16 آیۃ 15}۔ 

اسی طرح زمینی پلیٹوں (Plate Tectonics) کا جدید نظریہ کہتا ہے کہ پہاڑ زمین کے لیے سٹیبلائزرز (Stabilizers) ہیں، یعنی اسے استحکام اور توازن بخشتے ہیں۔ پہاڑوں کے اس کردار کا علم عشرہ 1960ء کے اواخر میں ہوا جب زمینی پلیٹوں کا نظریہ سامنے آیا ۔ اس نظریے کے مطابق اگر پہاڑ نہ ہوں تو زمین کی سطح میں اس قدر تیزی سے تبدیلیاں آئیں کہ برا عظم ایک جگہ سے دوسرے جگہ چلے جائیں۔ کیا کوئی نبی ﷺ کے عہد میں پہاڑوں کی حقیقی شکل کے بارے میں جان سکتاتھا؟ کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ ٹھوس اور بلند و بالا پہاڑ جو آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں، در اصل زمین کے اندر بہت گہرائی میں اترے ہوئی ہیں اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں، جیسا کہ آج کے سائنسدان اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ مثلاً کوہ قاف (قفقاز) کی بلند ترین چوٹی 5642 میٹر یعنی تقریباً 5٫6 کلو میٹر اُونچی ہے مگر اسی کو قاف کی جڑیں زمین کے اندر تقریباً 65 کلو میٹر تک گڑی ہوئی ہیں۔ یوں جدید علم الارض نے قرآنی آیات کی صداقت کا اعتراف کر لیا ہے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی علمی و تحقیقی کتاب " اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters