Wednesday, June 6, 2012

جہاد کی برکت اور اموالِ غنیمت:

رسول اللہ ﷺ نے یہود کو خیبر سے جلاوطن کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور معاہدہ میں یہی طے بھی ہوا تھا مگر یہود نے کہا: "اے محمدؐ! ہمیں اسی سرزمین میں رہنے دیجئے۔ ہم اس کی دیکھ ریکھ کریں گے۔ کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے زیادہ اس کی معلومات ہیں۔" ادھر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے پاس اتنے غلام نہ تھے جو اس زمین کی دیکھ ریکھ اور جوتنے بونے کا کام کر سکتے اور نہ خود صحابہ کرامؓ کو اتنی فرصت تھی کہ یہ کام سر انجام دے سکتے۔ اس لیے آپ ؐ نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے حوالے کر دی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا یہود کو دیا جائے گا اور جب تک رسول اللہ ﷺ کی مرضی ہو گی اس پر برقرار رکھیں گے (اور جب چاہیں گےجلاوطن کر دیں گے) اس کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگایا کرتے تھے۔ 

خیبر کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ اسے 36 حصّوں میں بانٹ دیا گیا۔ ہر حصہ ایک سو حصوں کا جامع تھا۔ اس طرح کل تین ہزار چھ سو (3600) حصے ہوئے۔ اس میں سے نصف یعنی اٹھارہ سو حصے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے تھے۔ عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہ ﷺ کا بھی ایک ہی حصہ تھا۔ باقی یعنی اٹھارہ سو حصوں پر مشتمل دوسرا نصف، رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات و حوادث کے لیےالگ کر لیا تھا۔ اٹھارہ سو حصوں پر خیبر کی تقسیم اس لیے کی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل حدیبیہ کے لیے عطیہّ تھا، جو موجود تھے ان کے لیے بھی اور جو موجود نہ تھے ان کے لیے بھی، اور اہل حدیبیہ کی تعداد چودہ سو تھی۔ جو خیبر آتے ہوئے اپنے ساتھ دو سو گھوڑے لائے تھے۔ چونکہ سوار کے علاوہ خود گھوڑے کو بھی حصہ ملتا ہے۔ اور گھوڑے کا حصہ ڈبل یعنی دو فوجیوں کے برابر ہوتا ہے اس لیے خیبر کو اٹھارہ سو حصوں پر تقسیم کیا گیا تو دو سو شہ سواروں کو تین تین حصے کے حساب سے چھ سو ملے تھے اور بارہ سو پیدل فوج کو ایک ایک حصّےکے حساب سےبارہ سو حصے ملے۔ 

خیبر کے اموالِ غنیمت کی کثرت کا اندازہ صحیح بخاری میں مروی ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: " ہم لوگ آسودہ نہ ہوئے یہاں تک کہ ہم نے خیبر فتح کیا۔" اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا اب ہمیں پیٹ بھر کر کھجور ملے گی۔ نیز جب رسول اللہ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کر دیے جو انصار نے امداد کے طور پر انھیں دے رکھے تھے کیونکہ اب ان کے لیے خیبر میں مال اور کھجور کے درخت ہو چکے تھے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب "الرحیق المختوم

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters