Tuesday, June 5, 2012

بلندی پر سانس کی تنگی:

جس زمانے میں قرآن نازل ہوا، لوگوں کا خیال تھا کہ جو شخص بلندی کی طرف جائےگا اسے زیادہ تازہ ہوا، زیادہ فرحت اور زیادہ خوشی حاصل ہو گی، لیکن جدید دور میں جب انسان نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور وہ تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے لگا تو اسے پتہ چلا کہ بلندی پر جاتے ہوئے نسبتاً کم آکسیجن مہیا ہوتی ہے اور سانس لینے میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ اس شدید گھٹن سے بچنے کے لیے ہوئی جہازوں میں مصنوعی آکسیجن لے جانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔

نبی ﷺ کے زمانے میں اس قدر بلندی پر جانے کا تصور تھا نہ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا، لیکن قرآن مجید میں یہ آیت ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے: "پس (یہ حقیقت ہے کہ) اللہ جسے ہدایت بخشنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ اورگھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے (بلندی کو جا رہا ہے)۔" {ترجمہ سورۃ 6 آیۃ 125}

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی علمی و تحقیقی کتاب " اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات "۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters