Tuesday, July 31, 2012

پلنگ کے بوسے !!:

بہرحال ہم دیکھ رہے تھے کہ اب جن عورتوں کا اولاد لینا ہوتی ہے، وہ اس پلنگ کو بوسے دیتی ہیں، اس پر ہاتھ پھیر کر اپنے جسم پر پھیرتی ہیں اور بعض تو اس پلنگ کے نیچے لیٹ جاتی ہیں اور لیٹنے کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ اب بابا پیر اولاد دے گا۔ اس پلنگ کے اوپر ریشمی پردہ پڑا ہوا تھا اور پردے کے اوپر ہار لٹک رہے تھے۔ مسہری والے کمرے میں ریشمی پردے اور ہاروں کے پیچھے کونسا حسین چہرہ چھپا بیٹھا ہے! عورتیں تو یہ گھونگھٹ اٹھاتی ہیں اور پھر نیاز دیتی ہیں، سلامی دیتی ہیں۔ 

دور سے ہم نے لوگوں کو اس حسین چہرے کو بوسے دیتے ہوئے دیکھا تھا، اب ہم نے بھی آگے بڑھ کر، قریب ہو کر گھونگھٹ اٹھایا، پردہ سرکایا تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایک تصویر تھی، حضرت ولی کامل چھتن شاہ قدس سرہ اور مدظلہ العالی کی تصویر اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت مدظلہ العالی کی تصویر بالکل برہنہ تھی۔ 

جی ہاں! "ولیوں" کی یہ وہ قسم ہے کہ جنھیں مجذوب کہا جاتا ہے۔ ولایت کا بڑا بلند مقام ہے کہ اس مقام پر پہنچ کر ولی اسی طرح پاک ہو جاتا ہے کہ جس طرح بچہ مادر زاد ننگا شکم مادر سے اس دنیا میں آتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے ولی بازاروں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو یہ مجذوب اولیاء کرام کی ٹیم ہے کہ برصغیر میں اسلام پھیلانے میں ان کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اور یہ اسلام ابھی تک پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ہاں! تو حضرت چھتن شاہ کا دربار بھی فیوض و برکا ت کامنبع ہے اور یہاں اسلام خوب پھیل رہا ہے۔ ہم اس کے پھیلنے کا مزید مشاہدہ کرنے کے لئے اس مقدس حجرے سے نکلے اور بائیں جانب حضرت کے دربار کی طرف چل دیے۔ حضرت کی قبر کے جسے دربار شریف کہا جاتا ہے، اس پر کھلونا نما تین عدد پنگھوڑے پڑے تھے، جنھیں اولاد لینا ہوتی ہے، وہ حجرۂ عروسی میں ننگے بابے کی تصویر کو سجدہ کرنے اور بوسے دینے کے بعد یہاں پنگھوڑوں میں نیاز ڈالتے ہیں اور پھر اسے ہلاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس پنگھوڑے میں جو یہ نوٹ جھولے جھول رہے ہیں یہ درحقیقت مستقبل کے پیراں دتہ اور غوث بخش جھول رہے ہیں۔ اب ہم حضرت چھتن شاہ کے دربار سے نکلے تو حجروں کی طرف چل دیے۔ ایک حجرے کے اندر پہلا قدم رکھا تو دوسرا قدم رکھنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ حضرت چھتن شاہ کے ملنگوں نے ہمیں اندر آنے کا کہا مگرہم نہ جاسکے۔ کس طرح جاتے، یہ ہمارا مقام ہی نہ تھا۔ یہ مقام تو اصحاب طریقت کا ہے۔ وہ اصحاب طریقت کہ جو ولایت مجذوبیت کے مقام سے آشنا ہیں جبکہ ہم نا آشنا تھے۔ اب ہم چرس اور ہیروئن سے آشنا ہوتے تو اندر داخل ہو جاتے۔ کیونکہ یہاں تو جو پاکباز ہستیاں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہیروئن اور چرس کے کش لگا رہی تھین اور وہ جذب و مستی کی نہ جانے کن کن منزلوں اور فضاؤں میں پہنچ کر تصوف کی منزلوں پر منزلیں سر کر رہیں تھیں۔ چنانچہ ہم چھتن شاہی ولایت کے اس سیاہ ماحول میں دوسرا قدم رکھتے تو آخر کیسے؟ ہم نے تو بڑھا ہو قدم بھی پیچھے ہٹا لیا اور پھر "پکے قلعے" پر جا پہنچے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, July 28, 2012

جہادی خلافت سے خانقاہی خلافت تک:

خلیفہ اور خلافت وہ الفاظ ہیں کہ جن کے رعب سے کفر کانپ جایا کرتا تھا۔ اس لیے کہ خلافت مسلمانوں کی یکجہتی کی علامت تھی اور خلیفہ پوری مسلم دنیا کا حکمران ہوتا تھا، وہ ہمہ وقت جہاد کے لیے تیار رہتا تھا۔ ۔ ۔ مگر پھر ہوا یہ کہ سبائی اور مجوسی سازش کے تحت قبروں پر خلافت قائم ہونے لگی اور قبروں کے سجادہ نشین، بادشاہ اور سید زادے شہزادگان ولایت کہلانے لگے۔ باپ کے مرنے کے بعد بیٹا قبر کا خلیفہ بننے لگا، خلافت کی اجازت سند حاصل کرنے لگا۔ یہ سند بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچا کر کہا جاتا تھا کہ انھوں نے یہ سند اللہ کے رسول ﷺ سے حاصل کی ہے۔ ولی حضرات تصوف کی ولایتیں بانٹنے لگےکہ قطب، ابدال اور غوث نے فلاں ولی کو اپنا خلیفہ بنا کر علاقے کی ولایت دے دی ہے کہ تم جا کر وہاں خانقاہ قائم کرو۔ اب اس خانقاہ میں یہ شخص مر جاتا تو اس کا دربار بن جاتا اور پھر اس کی اولاد "سید" کہلا کر قبر کی وارث بن کر شاہان ولایت بن جاتی ۔ ۔ ۔ جہادی خلفاء تو انصاف کے لیے اپنا دربار لگایا کرتے تھے مگر قبریں ، دربار اور مزار بن کر پھیلتے گئے حتٰی کہ یہ جو چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوئے، یہ اس قدر پھیلے کہ دو تین سو سال میں سارا عالم اسلام ان سے بھر گیا۔ الہٰ واحد کو ماننے والی امت قبروں کی پجاری بن گئی، خلافت کے پرچم تلے جہاد کرنے والی امت بے شمار ، ان گنت اور لاتعداد قبوری خلافتوں کی نذر ہوگئی۔ 

اس امت کا حال کس قدر بگڑ چکا تھا، اس کا اندازہ ہمیں ابن بطوطہ کے سفر نامے سے ہوتا ہے۔ کہ جب ہم اس کا سفر نامہ پڑھتے ہیں تو ابن بطوطہ جو ساری اسلامی دنیا گھومتا ہے، ہر علاقے میں جہاں بھی جاتا ہے یہ لکھتا ہے کہ میں فلاں دربار پر گیا تو خرقہ خلافت پہنا، فلاں خانقاہ پر گیا تو اس کے سجادہ نشین نے مجھے دستار فضیلت پہنائی اور فلاں مزار پر گیا تو اس کے گدی نشین نے مجھے خلعت خلافت سے نوازا۔ غرض ابن بطوطہ کے سفر نامے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہادی خلافت اب مردوں کی درباری خلافت کے شکنجے میں جکڑی جا چکی تھی اور یہ خانقاہی خلافت اس قدر اپنے پھن پھیلائے ہوئے تھی کہ یہی ابن بطوطہ جب دمشق میں جاتا ہے تو کہاتا ہے: "وہاں کی ایک جامع مسجد میں میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی ہے کہ جس کا عقیدہ سارے عالم اسلام سے منفرد ہے اور اس کے ناپسندیدہ مسائل میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتا ہے۔" 

یاد رہے یہ شخص امام احمد ابن تیمیہ ؒ تھا کہ جو ابن بطوطہ کو اچھا دکھائی نہیں دیا ۔ ۔ ۔ وہ اچھا کس طرح دکھائی دیتا کہ وہ اس قبوری خلافت کے خلاف تھا۔ اس نے اس شرک و بدعت کے خلاف چہار سو جہاد شروع کر رکھا تھا۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا زمانہ 661 تا 727 ہجری کا ہے ۔ ۔ ۔ یہ زمانہ شرک اور قبر پرستی کے عروج کا زمانہ تھا۔ چنانچہ یہی وہ دور ہے کہ جب اللہ کے عذاب کا کوڑا برسا اور چنگیز اور ہلاکو خان کی یلغار سے سارا عالم اسلام برباد ہو گیا۔ صرف دمشق اور مصر کا علاقہ ہی بچ سکا کہ جہاں ابن تیمیہ ؒ نے جہاد کیا تھا۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Friday, July 6, 2012

گستاخِ رسول ﷺ کو شیر نے پھاڑ کھایا:

ابو لہب کے بیٹوں میں سے ایک کا نام عُتیبہ تھا۔ یہ بد بخت نبی ﷺ کی ایذا رسانی میں سب سے آگے اور گستاخیٔ رسالت میں بڑا بے باک تھا۔ اس نے ایک دن یہ ناپاک جسارت کی کہ نبی ﷺ کی قمیص مبارک کو پھاڑ دیا اور آپ ﷺ کے روئے زیبا پر تھوکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس وحشیانہ گستاخی پر آپ ﷺ نے اس کے حق میں یہ بد دعا فرمائی: "اے میرے پروردگار! اس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔"

مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام گیا۔ جب راستے میں "الزرقاء" نامی جگہ پر قافلے نے پڑاؤ ڈالا۔ عتیبہ کو جنگل کی اس دہشت ناک فضاء میں رسول اللہ ﷺ کی بد دعاء یاد آئی۔ وہ خوف سے کانپنے لگا، چنانچہ اسے اس بددعا کے خوف سے اونٹوں اور قافلہ والوں کے حصار میں بڑی حفاظت سے سلایا گیا مگر اس تدبیر پر تقدیر غالب رہی۔ رات کو اس طرف ایک شیر آ نکلا۔ قافلے والوں نے اسے دیکھا تو وہ دہشت زدہ ہو گئے۔ اور عتیبہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے وہ بدحواس ہو کر چیخنے لگا: واللہ! یہ شیر مجھے محمد ﷺ کی بددعا کے نتیجے میں کھا جائے گا، ہر چند وہ مکہ میں ہیں اور میں یہاں شام میں ہوں مگر یہ شیر مجھے نہیں بخشے گا۔ ۔ ۔ ۔ ایسا ہی ہوا۔ وہ شیر سارے قافلے کو پھلانگتا ہوا سیدھا عتیبہ کی طرف جھپٹا اور دیکھتی آنکھوں اس نے عتیبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " آفتاب نبوت کی سنہری شعاعیں
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Thursday, July 5, 2012

میرِ عرب ﷺکے آباء سے متعلق ایک شاندار واقعہ:

عبدالمطلب کے دس یا بارہ بیٹوں میں سے پانچ نے اسلام یا کفر یا کسی اور خصوصیت کی وجہ سے شہرت عام حاصل کی ، یعنی ابو لہب، ابو طالب، عبداللہ، حمزہ اور عباس۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ابو لہب لوگوں کا دیا ہوا لقب ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ ابن سعد نے طبقات میں تصریح کی ہے کہ یہ لقب خود عبدالمطلب نے دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو لہب نہایت حسین و جمیل تھا اور عرب میں گورے چہرے کو شعلۂ آتش کہتے ہیں، فارسی میں آتشِ رخسار کہا جاتا ہے۔ عبدالمطلب نے منت مانی کہ دس بیٹوں کو اپنے سامنے جوان دیکھ لیں گے تو ایک کو اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے۔
اللہ نے آرزو پوری کی۔ وہ بیٹوں کو لے کر کعبہ میں آئے۔ پجاری سے کہا کہ ان دسوں پر قرعہ ڈالو، دیکھو کس کا نام نکلتا ہے۔ اتفاق سے عبداللہ کا نام نکلا۔ یہ انہیں لے کر قربان گاہ چلے گئے۔ عبداللہ کی بہنیں ساتھ تھیں۔ وہ رونے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بدلے دس اونٹ قربان کیجیے۔ انہیں چھوڑ دیجیے۔ عبدالمطلب نے پجاری سے کہا کہ عبداللہ اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالو۔ اتفاق سے پھر عبداللہ ہی کے نام پر قرعہ نکلا۔ عبدالمطلب نے پجاری سے کہا کہ اب دس کی بجائے بیس اونٹ کر دیجئے۔ یہاں تک بڑھاتے بڑھاتے سو تک نوبت پہنچی تو اونٹوں پر قرعہ نکل آیا۔ سردار عبدالمطلب نے سو اونٹ قربان کیے اور عبداللہ بچ گئے۔

اس واقعہ سے پہلے عرب میں انسانی دیت (خون بہا) کے لیے دس اونٹ مقرر تھے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد دیت کی مقدار عام طور پر سو اونٹ ہو گئی۔ گویا عبدالمطلب کے خلوص اور سردار عبداللہ کی اطاعت پدر کا یہ نتیجہ نکلا کہ سارے عرب میں انسان کی قدر و قیمت غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ۔ صاف ظاہر ہے کہ دیت کی مقدار میں دس گنا اضافہ سے وارداتِ قتل میں بہت نمایا ں کمی ہو گئی ہو گی۔ اس طرح یہ واقعہ تمام جزیرہ عرب اور بنی نوع انسان کے لیے خیرات و برکات کا موجب بن گیا۔

بلا شبہ جس گراں قدر سردار کے فرزند کو رحمت للعالمین ﷺ بننا تھا اس کے آباء کا بھی بنی نوع انسان کے لیے ایسا ہی محسن ہونا ضروری تھا۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " آفتاب نبوت کی سنہری شعاعیں
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, June 30, 2012

عیسائیوں کی جہالت اور "خانقاہی کرامت":

اسی طرح یورپ کے عیسائی جو بیت المقدس پر قابض ہو چکے تھے، ان سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے جہاد کی تیاریاں شروع کر دیں۔ تب یورپین ملکوں کے تمام عیسائی اپنی افواج سلطان کے مقابل لے آئے ۔ ان افواج کی قیادت برطانیہ کا رچرڈ، فرانس کا بادشاہ فلپ اور جرمنی کا بادشاہ فریڈرک کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ سلطان نے اللہ کی مدد سے ان سب کو شکست دی اور بیت المقدس عیسائیوں سے چھین لیا۔ بیت المقدس کے لیے جو جنگیں عیسائیوں سے لڑی گئیں انھیں صلیبی جنگیں کہا جاتا ہے۔ ان جنگوں میں یورپین ملکوں کی تباہی کا اندازہ اس سے لگائیے اور ساتھ ہی ان کی اخلاق باختگی اور جہالت کا بھی کہ جب انھوں نے دیکھا کہ ہماری ساری افواج تو سلطان کے مقابلے میں تباہ ہو گئی ہیں تو انھوں نے یہ سوچ کر کہ بڑے لوگ چونکہ گناہوں کے کام کرتے ہیں، اس لیے اللہ انھیں مسلمانوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں کرتا، چنانچہ انھوں نے بچوں کی ایک فوج 1212 ء میں فرانس سے بھیجی لیکن مارسلز کی بندرگاہ تک پہنچتے پہنچتے بچے تتر بتر ہو گئے اور خود راستے میں عیسائیوں نے ان کے ساتھ بد سلوکی کی، لوٹ مار کی اور انھیں غلام بنا کر بیچ ڈالا۔

یہ تھی کفار کی مشرکانہ ضعیف الاعتقادی ۔ ۔ ۔ توہم پرستی اور جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ ۔ ۔ جس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس توحید کا اجالا تھا اور اس اجالے اور روشنی کی معیت میں انھوں نے تلوار چلائی تو اندھیرے چھٹتے گئے اور روشنی پھیلتی گئی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ آہ کہ آج وہی اندھیرا ہے اور وہی ضعیف الاعتقادی ۔ ۔ ۔ توہم پرستی ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے اس کا شکار ہیں۔ جب 65ء کی جنگ ہوئی، اللہ تعالیٰ نے انڈیا کے خلاف مسلمانوں کی مدد کی، تو خانقاہی لوگ کہہ اٹھے: "یہ جنگ تو مزاروں میں مدفون سبز پوشاک والے بزرگوں نے جیتی ہے۔ وہ بموں کے گولے زمین پر پہنچنے سے قبل کیچ کر لیا کرتے تھے اور وہی گولے پھر دشمن پر پھینک دیتے تھے۔" 

چنانچہ اللہ کو غیرت آئی اور 1971ء کی جنگ میں ہماری ایک لاکھ فوج ہندو کے نرغے میں تھی اور جنرل اروڑہ جنرل نیازی کے تمغے اتار رہا تھا۔ سادہ لفظوں میں ہندو اس کے سر پر جوتے مار رہے تھے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, June 23, 2012

بیتُ اللہ کے دشمن ابرہہ حبشی کا انجام:

سردار عبدالمطلب کے دور میں ابرہہ حبشی نے بیت اللہ کو ڈھانے کا پرگرام بنایا۔ یہ واقعہ بڑا معروف ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابرہہ نجاشی کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا۔ اس نے دیکھا کہ اہل عرب بیت اللہ کا حج کرتے ہیں، دیکھادیکھی اس نے بھی صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا بنوایا۔ اس کی خواہش تھی کہ عرب کے حج کا رخ اسی کی طرف پھر جائے۔ یہ خبر بنو کنانہ کے ایک آدمی کو ہوئی تو اس نے اس کلیسا میں رفع حاجت کر ڈالی۔ ابرہہ کو سخت غصہ آیا۔ اس نےساٹھ ہزار کا لشکر جرار لے کر بیت اللہ پر چڑھائی کر دی۔ اس کے لشکر میں9 یا 13 ہاتھی تھے۔ اسی لیے ان کو اصحاب فیل کہا گیا۔ جب یہ لشکر لے کر طائف کے قریب پہنچا تو بنو ثقیف نے راستہ بتانے کے لیے ابو رغال نامی آدمی اس کے ساتھ کر دیا۔جب مکہ تین میل دور رہ گیا تو ابو رغال راستہ ہی میں مر گیا۔ ابرہہ نے اپنے مقدمۃ الجیش کے فوجیوں کو آگے بڑھایا انہوں نے اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی لوٹ لیے۔ ان میں سردار عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ شامل تھے۔

بیت اللہ کو ڈھانے کی خبر جب اہل مکہ کو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم میں ابرہہ سےلڑنے کی طاقت نہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے وہ چاہے تو اپنے گھر کو بچا لے۔ ادھر ابرہہ نے اپنا ایلچی بھجوایا کہ میری اہل مکہ سے کوئی لڑائی نہیں میں تو صرف بیت اللہ کو ڈھانے آیا ہوں۔ ایلچی کے کہنے پر سردار عبد المطلب کی ابرہہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس قدر وجیہہ اور شاندار شخص تھے کہ انہیں دیکھ کر ابرہہ بہت متاثر ہوا وہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس نے کہا: آپ اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر یہ گھر جو آپ کااور آپ کے دین کا مرجع ہے اس کی کوئی بات نہیں کر رہے؟ انہوں نے کہا: میں اونٹوں کا مالک ہوں اور انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر تو اس کا ایک رب ہے وہ اس کی خود حفاظت کرے گا۔ ابرہہ نے کہا کہ وہ اس کو مجھ سے بچا نہ سکے گا۔عبدالمطلب نے جواب دیا کہ آپ جانیں اور وہ جانے۔ عبدالمطلب نے یہ بھی کہا: یہ اللہ کا گھر ہے آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا۔ ابرہہ نے ان کے اونٹ واپس کر دیے۔

اہل مکہ اپنے بال بچوں کے لے کر پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ عبدالمطلب نے چند سرداروں کو ساتھ لیااور حرم میں اللہ تعالیٰ سے بیت اللہ کی حفاظت کی دعائیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ نے لشکر کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈارسال کر دیے جو اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزےلیے ہوئے تھے۔ انہوں نے لشکر پر سنگریزوں کی بارش کردی۔ جس سے سارا لشکر ہلاک ہو گیا۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " آفتاب نبوت کی سنہری شعاعیں
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Sunday, June 17, 2012

چٹا گانگ میں "کچھوا" کی پرستش کے مناظر:

جس طرح پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کراچی شہر ہے، اسی طرح بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ساحلی شہر اور بندرگاہ چٹا گانگ ہے۔ جب راقم بنگلہ دیش کے دورے پر گیا تو چٹا گانگ میں احباب ایک درگاہ پر لے گئے۔ اس درگاہ میں مدفون بزرگ کا نام بایزید بسطامی ہے۔ یہ چٹاگانگ شہر کی ایک بڑی درگاہ ہے۔ہم جب اس میں داخل ہوئے تو اس کے بڑے صحن میں لوگ قطار میں بیٹھے تھے ۔ میں نے سوچا کہ یہ سب وضو کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں مگر جب قریب ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بڑے بڑے کچھوے جنھیں ہمارے ہاں بعض لوگ "پلیتر" بھی کہتے ہیں، وہ تالاب کے کنارے تیر رہے تھے اور لوگ انھیں طرح طرح کے کھانے کھلا رہے تھے۔

یہ منظر دیکھنے کے لیے ہم یہاں رک گئے، اب کیا دیکھتے ہیں، ایک عورت جس کے ماتھے پر تلک لگا ہواتھا، وہ بھی کچھوے کو ڈبل روٹی کھلا رہی تھی۔ اس کی پشت پر محبت اور پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی اور تالاب کے پانی سے چلو بھر کر پلیتر کے اوپر ڈال رہی تھی۔ وہ پانی جب پھسل کر دوبارہ تالاب میں گرتا تو وہ وہیں سے دوبارہ چلو بھرتی اور اسے اپنے منہ پر ڈال لیتی۔ یہ پانی اس کے ہاں متبرک پانی تھا۔ اس کا منہ اب پوتر (پاک) ہو چکا تھا۔ غرض تلک لگائے ہوئے ہندو عورت اگر یہ سوانگ رچا رہی تھی تو مسلمان عورتیں بھی ایسا ہی کر رہی تھیں کہ ان کی تو پھر یہ اپنی درگاہ تھی۔ ایک مسلمان عورت اس پانی کے چھینٹے اپنی آنکھوں پر مار کر آنکھوں کی بینائی تیز کرنے کی کوشش کر رہی تھی، اپنے بچوں کے ساتھ بھی وہ یہی عمل دہرا رہی تھی، کچھوؤں کو کھلا رہی تھی اور ان کا تبرک حاصل کر رہی تھی۔ بدھ متوں کا ایک جوڑا بھی یہاں آیاہوا تھا، یہ جوڑا کچھوؤں کے سامنے سے پانی اٹھاتا اور چلو بھر کر پی جاتا۔ غرض یہ کہ یہ ایک ایسی درگاہ تھی کہ جس کے کچھوؤں کی پوجا ہو رہی تھی اور نام نہاد مسلمان، ہندو اور بدھ سب ہی اس درگاہ کے کچھوؤں کی پوجا میں مصروف تھے۔ 

یہ تینوں جب کچھوؤں سے پیار کر لیتے ، انھیں کھلا پلا لیتے ، ان کے منہ سے ڈبل روٹی لگا کر بطور تبرک کھا لیتے اور ان کے سامنے سے پانی پی لیتے تب اٹھ کر حضرت کی زیارت کو چل دیتے۔اب حضرت با یزید بسطامی کی قبر تک جانے کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ ہندو کا اپنا طریقہ ہے، بدھ مت کا اپنا انداز ہے، جبکہ مسلمان کچھوؤں کے تالاب کے اس متبرک پانی سے وضو کر لیتا ہے۔ ایک آدمی کچھوؤں کے درمیان پانی سے وضو کر رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ وضو کس قدر پاکیزہ عمل ہے مگر یہ کتنے گندے پانی سے کیا جا رہا ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی باتھ روم میں نماز پڑھنا شروع کر دے ، کچھوؤں کے تالاب سے وضو کرنا ایسے تھا جیسے کوئی بھنا ہوا تیتر اور گرم گرم حلوہ لیٹرین میں بیٹھ کر کھانا شروع کر دے۔

اب یہ شخص وضو کرنے کے بعد ہندوؤں اور بدھوں کے درمیان سے اٹھا اور درگاہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگا کہ اس ظالم کو بیت اللہ کا رخ بھی بھول گیا۔ غرض قبر کو قبلہ بنا کر اس نے نماز پڑھ ڈالی اور پھر ہندوؤں، بدھ متوں اور دوسرے لوگوں کی بھیڑ میں چھوٹی سی پہاڑی پر بنی ہوئی درگاہ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, June 16, 2012

جب کوئی چارۂ کار نہیں توگزارہ کرو:

"جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" یہ بات میں نے ایک نوجوان سے کہی جو ذیابیطس کا مریض تھا۔ وہ پھیکی چائے پی رہا تھا اور اپنے حال پر افسوس کر رہا تھا۔ میں نے کہا: "چائے نوشی کے دوران تمھارے افسوس کرنے یا غمزدہ ہونے سے اس بیماری کو کوئی فائدہ ہو گا؟" 

وہ بولا: "نہیں۔" اس پر میں نے کہا: "جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" 

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ دنیا کے سارے معاملات ہماری مرضی کے مطابق ہوں۔ ایسی صورتِ حال کا سامنا ہمیں اکثر کرنا پڑتا ہے۔ آپ اپنی من پسند ملازمت کے لیے انٹرویو دینے گئے۔ وہاں آپ کو قبول نہیں کیا گیا۔ آپ نے دوسری جگہ رجوع کیا، وہاں آپ کو رکھ لیا گیا، اس پرابلم کا حل کیا ہے؟ یہی کہ "جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" 

آپ نے کسی لڑکی کو شادی کا پیغام بھیجا، لڑکی نے انکار کر دیا اور کسی اور کا پیغام قبول کر لیا۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟ یہی نہ کہ "جب کوئی چارۂ کار نہیں تو گزارہ کرو۔" بہتر ہے کہ اس کا خیال دل سے نکال کر کسی اور لڑکی سے شادی کر لیں۔ دنیا میں لڑکیوں کی کمی ہے کیا؟ 

بہت سے لوگوں کو ان مسائل کا یہ دو ٹوک حل پسند نہیں آتا۔ وہ ان مسائل کا حل دائمی افسردگی، ہمیشہ کے افسوس اور ہر ایرے غیرے سے شکوہ شکایت کی صورت میں نکالتے ہیں۔ لیکن یہ انداز نہ تو اُنھیں کھوئی ہوئی اشیاء دلاتا ہے اور نہ قسمت کے لکھے کو تبدیل کرتا ہے۔ میرے نزدیک زندگی کے ان مسائل کا سوائے اس کے کوئی حل نہیں کہ آپ جو چاہتے ہیں وہ نہیں ہوتا تو وہ چاہنے لگ جائیں جو ہو سکتا ہے۔ عقل مند انسان وہی ہے جو اپنا مزاج حالات کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، یہاں تک کہ وہ صورتِ حال کی تبدیلی پر قادر ہو جائے۔ 

میرا ایک دوست جو ایک مسجد کی تعمیراتی سرگرمیوں کا نگران تھا، اُس نے مجھے بتایا کہ دورانِ تعمیر رقم کی کمی کے باعث انھوں نے شہر کے ایک نامی گرامی تاجر سے مدد طلب کی۔ وہ اس کے ہاں گئے۔ تاجر نے انھیں بٹھایا۔ خاطر خواہ تواضع کی۔ انھوں نے مدعا کہا تو تاجر نے حسب توفیق مدد کی، پھر وہ جیب سے ایک دوانکال کر لینے لگا۔ ہم نے کہا: "خیریت گزری؟ کیا بات ہے؟" تاجر نے کہا "کچھ نہیں۔ یہ نیند کی گولیاں ہیں۔ دس سال ہو گئے ہیں، ان کے بغیر مجھے نیند نہیں آتی۔"

ہم نے اس کے لیے دعا کی اور سلام کر کے نکل آئے۔ راستے میں سڑک کی تعمیر کا کام جاری تھا۔ وہاں انھوں نے بڑے بڑے جنریٹروں کے ذریعے سے سرچ لائٹیں جلا رکھی تھیں۔ جنریٹروں کا شور دور دور تک سنائی دیتا تھا۔ یہ سب معمول کی بات تھی ۔ عجیب بات یہ تھی کہ جنریٹروں کا غریب چوکیدار اخبارکے چند کاغذ زمین پر بچھائے مزے سے سور رہا تھا۔ جی ہاں! زندگی گزاریے۔ پریشان ہونے کا وقت نہیں۔ ضروریاتِ زندگی میں سے جو کچھ مل گیا ہے۔ اللہ کا شکر کرتے ہوئے اُسے استعمال میں لائیے اور جو نہیں ملا، اُس پر کڑھناچھوڑیے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " زندگی سے لطف اٹھائیے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Thursday, June 14, 2012

اچھا! وہ بابا فضل کا دربار کہاں ہے؟:

صحن میں ایسی ہی چھوٹی بڑی قبروں میں سے ایک قدرے بڑی قبر تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ اس قبر کے جنگلے کے ساتھ ایک تیرہ چودہ سالہ بچہ لوہے کہ زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اب میں اپنے ساتھیوں سمیت اس بچے کی جانب چل دیا کہ اس سے بات کروں مگر وہ کوئی بات نہ کرتا تھا۔ ۔ ۔ آخر اس نے پیسے مانگے، ہم نے پیسے دے دیے اور جب ہم نے پوچھا: "تیرا سنگل اتار دیں؟" تو وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمیں دیکھنے لگا۔ شاید وہ کہہ رہا تھا کہ میں بھلا آزاد بھی ہو سکتا ہوں؟ اتنے میں اس کا بھائی اور ماں بھی آ گئی۔ اب اس کی ماں سے میں نے پوچھا: "اسے کیوں باندھ رکھا ہے؟"تو وہ کہنے لگی: "یہ پاگل ہو گیا ہے، کسی نے حسد کر کے ہم پر جادو کر دیا ہے، تعویذ ڈال دیا ہے، اسے بابا کے پاس لائی ہوں، تین ماہ سے اسے باندھ رکھا ہے، یہ ٹھیک ہو جائے گا" 

میں نے اسے سمجھایا کہ اسے ہسپتال لے جاؤ، ڈاکٹر کو دکھلاؤ مگر وہ نہ مانی۔ پھر میں نے اسے کہا کہ اچھا تم یوں کرو کہ پانچ وقت نماز پڑھو، مشکل کشا صرف اللہ کو سمجھو، کسی سے امیدیں مت لگاؤ ، پچھلی رات اٹھ کر تہجد پڑھو، اللہ کے حضور رو رو کر دعا مانگو اورکہوکہ اے اللہ !سب درباروں سے مایوس ہو گئی ہوں، اب صرف تیری جناب میں آ گئی ہوں، ہمارے گناہ معاف کر دے اور اسے ٹھیک کر دے اور پھر معوذتین پڑھ کر اسے دم کر دیا کرو، یہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو جائے گا۔ میری اتنی تقریر کے بعد وہ اللہ کی بندی کہنے لگی: "اچھا! وہ بابا فضل کا دربار کہاں ہے؟"

اف اللہ! میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ ۔ ۔ کہ اس عورت کے ذہن میں نہ جانے کتنے بابے ہیں کہ کچھ بھی کہا جائے مگر اسے بابا ہی یاد آتا ہے۔ بہرحال اب ہم اس دربار سے نکل کھڑے ہوئے کہ جسے لوگ اصحابی بابا کہتے ہیں۔ دربار پر بھی اصحابی لکھا ہوا ہے حالانکہ عربی میں یہ جمع کا لفظ ہے، جسے کا مطلب بنتا ہے "میرے صحابہ" مگر طریقت کا علم سے کیا تعلق کہ اس کے اپنے طریقے اور اپنے ہی چلن ہیں۔ اب ہم چل دیے ایک ایسے دربار کی جانب کہ جسے ننگ دین اور ننگ انسانیت کہنا چاہیے۔ یہ دربار جس بابا کا ہے اس کا نام ہے لٹن شاہ!

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Wednesday, June 13, 2012

رسول اللہ ﷺ کا اعلٰی اخلاق:

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا شمار عرب کے دور اندیش، زیرک اور ہوشیار ترین آدمیوں میں ہوتا تھا۔ ایسے زبردست آدمی کو عرب داہِیَہ کے لقب سے پکارتے ہیں۔ عمرو اپنی قوم کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ اسلام لانے کے بعد جب کبھی سرِ راہ اُن کی ملاقات رسول اللہ ﷺ سے ہوئی، انھوں نے آپ ﷺ کے چہرے پر تازگی، مسرت اور محبت کے آثار نمایاں دیکھے۔ وہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کی کسی محفل میں شریک ہوئے، عزت و تکریم اور سعادت مندی نے اُن کا خیر مقدم کیا۔ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ انھیں اُن کے پسندیدہ ترین نام سے مخاطب کرتے۔ عمرو کو اپنے لیے رسول اللہ ﷺ کےاس غیر معمولی اہتمام، دائمی تبسم اور برتاؤ کو دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو سب سے بڑھ کر محبوب ہیں۔ انھوں نے اس گمان کو یقین کا جامہ پہنانا چاہا۔

چنانچہ ایک دن عمرو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ کے قریب بیٹھ گئے اور سوال کیا: "اے اللہ کے رسول! آپ کو سب سے پیارا کون ہے؟"
"عائشہ۔" اللہ کے پیغمبر نے جواب دیا۔
عمرو بولے: "نہیں، اے اللہ کے رسول! مردوں میں سے؟ میں نے آپ سے آپ کے گھرانے کے متعلق سوال نہیں کیا۔"
"عائشہ کا والد۔" رسول اللہ ﷺ گویا ہوئے۔
عمرو نے کہا: "پھر کون؟"
"پھر عمر بن خطاب۔"
عمرو کا بیان ہے کہ پھر میں یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ اس فہرست میں مجھے سب سے آخر میں نہ رکھ دیں۔ ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعلٰی اخلاق پر مبنی برتاؤ کے ذریعےعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے قلب پر کیسا اچھا اثر ڈالا۔ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو ان کی حیثیتوں کے مطابق رُتبہ دیتے تھے۔ آپ لوگوں کے لیے اپنے ضروری کام ملتوی کر دیتے تا کہ انھیں احساس ہو کہ آپ کے دل میں اُن کی کتنی محبت اور قدر ہے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " زندگی سے لطف اٹھائیے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Monday, June 11, 2012

مسلم خاتون کی عصمت کی قدرو قیمت:

مدینہ میں یہود مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے۔ اُنھیں حجاب کا حکم اترنا اور مسلمان عورتوں کا با پردہ چلنا پھرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ مسلم خواتین کے حلقے میں فساد اور عریانی کے بیج بونے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ تاہم ابھی تک وہ اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

ایک روز ایک مسلم عورت یہودِ بنی قینقاع کے بازار سے سودا سلف لینے آئی۔ وہ ایک عفت مآب اور باحجاب خاتون تھی۔ وہ وہاں کے ایک یہودی سنار کے پاس گئی اور اس کی دکان میں بیٹھ گئی۔ یہود اس کی پاکیزگی اور با پردگی دیکھ کر آگ بگولا ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس خاتون کے دیدار اور لمس کی لذت سے اسی طرح لطف اٹھائیں اور کھلواڑ کریں جیسے وہ اسلام کی آمد سے پہلے کیا کرتے تھے۔یہود اس خاتون کو حجاب کھول دینے اور چہرہ دکھانے پر مجبور کرنے لگے لیکن اس نے ان کی ایک نہ مانی۔ وہ خاتون بیٹھی تھی کہ اس خبیث سنار نے موقع پا کر پچھلی جانب سے اس کی قمیص کا دامن کمر پر لٹکتے دوپٹے کے پلوّ سے باندھ دیا۔ خاتون کھڑی ہوئی تو پچھلی جانب سے قمیص کا دامن اُٹھ گیا اور پردہ کھل گیا۔ اس پر آس پاس کھڑے یہود نے زور کا قہقہہ لگایا۔ عفت مآب مسلم خاتون چیخی چلائی کہ تم مجھے قتل کر دیتے تو یہ میرے لیے بے پردہ ہونے سے کہیں بہتر تھا۔ ایک مسلمان بھی وہیں کہیں کھڑا تھا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو تلوار سونت کر یہودی سنار پر چڑھ دوڑا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ یہود نے مسلمان پر حملہ کر کے اسے شہید کر دیا۔

رسول اللہ ﷺ کو سانحے کا علم ہوا اور آپ کو بتایا گیا کہ یہود نے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ اور وہ مسلم خواتین کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے ہیں تو آپ نے اسلامی لشکر کے ہمراہ اُن کا محاصرہ کر لیا۔ اور جب تک یہود نے نبی ﷺ کا فیصلہ تسلیم نہ کر لیا، آپ پیچھے نہ ہٹے۔رسول اللہﷺ کا ارادہ تھا کہ یہود کو ان کے کیے کی عبرتناک سزا دی جائے تا کہ انھیں معلوم ہو کہ ایک پاکیزہ مسلم خاتون کی عصمت کی کیا قدرو قیمت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے ارادے پر عمل درآمد کرنا چاہاتو شیطانی فوج کا ایک سپاہی جسے مسلم خواتین کی عزت و حرمت کی کوئی پرواتھی نہ اسلام سے کوئی سرو کار، آپ کی طرف بڑھا۔یہ اس طبقے کا فرد تھا جس کا مطمح نظر اول و آخر اپنا پیٹ بھرنا اور سفلی جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرنا ہوتا ہے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھا اور بولا: "اے محمد(ﷺ)! میرے ہمدرد و ہم نوا یہود سے اچھا سلوک کرو۔" یہ لوگ عہد جاہلیت میں ابنِ ابی کے انصار تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیااور اس کا مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ ان لوگوں کے لیے عفو درگزرکا طالب تھا جو ایمان والوں میں فحاشی و عریانی کا فروغ چاہتے تھے۔منافقوں کا سردارپھر کھڑا ہوا اور درشتی سے بولا: "اے محمد(ﷺ)! یہود سے اچھا برتاؤ کرو۔" نبی کریم ﷺ نے عفت مآب مسلم خواتین کی غیرت کے مارے اس بار بھی اس سے رُخ پھیر لیا۔ اس پر منافق غصے میں آ گیا ۔ اس بد طینت نے نبی کریم ﷺ کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیااور اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا: "میرے ہمدردوں سے اچھا سلوک کرو، میرے ہم نواؤں سے اچھا برتاؤ کرو-" نبی کریم ﷺ کو سخت غصہ آیا۔ آپ نے مڑ کر اسے دیکھا اور بلند آواز سے کہا: "مجھے چھوڑ دو۔" منافق نہ مانا۔ وہ نبی ﷺ کو قسمیں دینے لگا کہ تمھیں یہود کے قتل کا حکم واپس لینا پڑے گا۔ بالآخر آپ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: "جاؤ وہ تمھارے ہیں۔"

رسول اللہ ﷺ نے یہود کے قتل کا فیصلہ تو واپس لے لیا لیکن انھیں مدینے سے جلاوطن کر دیا۔ جی ہاں! ایک مسلمان عورت کی عزت اسی تحفظ کی حق دار تھی۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی کتاب " زندگی سے لطف اٹھائیے
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت:

ایک دفعہ لوگوں نے سیدنا عمر فاروق کو بتایا کہ فلاں شخص سارا سال روزے رکھتا ہے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے مارا اور کہا: اے دَہری! تیرا کوئی روزہ نہیں، اے دَہری! تیرا کوئی روزہ نہیں۔ تم فوری طور پر کھانا کھاؤ۔ آپ کا اشارہ نبی ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی طرف تھا کہ جو ہمیشہ روزہ رکھے اس کا کوئی روزہ نہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی ایسے نوجوان کو دیکھتے جو سر اور کمر جھکا کر چل رہا ہوتا تو اسے زوردار آواز سے کہتے: برخوردار! اپنا سر اوپر اٹھاؤ، جتنا خشوع و خضوع دل کے اندر ہو اس سے کچھ کم ہی چہرے پر ظاہر ہونا چاہیے۔ دلی خشوع سے زیادہ ظاہر کرنے والا نفاق کا مظاہرہ کرتا ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وہ عبادت گزار نوجوان بہت پسند تھا جس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں اور وہ عمدہ خوشبو استعمال کرتا ہو۔ ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ مسلمان بچوں کی بہترین تربیت اس طرح ہو سکتی ہے کہ انہیں تیر اندازی، تیراکی اور گھڑ سواری کی تعلیم دی جائے۔وہ فرمایا کرتے تھے: "امت اسلام! تمہاری عظمت اسی وقت تک ہے جب تک تم گھوڑوں کی پیٹھوں پر رہو"۔
سیدنا عمر فاروق اسلام کو قوی اور غالب دیکھنا چاہتے تھے، اسی لیے نوجوانوں کی تربیت اس انداز میں کرتے کہ ان کی شخصیت میں اسلام کا وقار نمایاں نظر آئے۔ چنانچہ خود کو "مریل" لوگوں کی طرح گردن جھکا کر خشوع و خضوع کا اظہار کرنے والوں کو مارا کرتے تھے۔آپ نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا جو خود کو "درویش" اور "مریل" ظاہر کر رہا تھااور یہ تاثر دے رہا تھا کہ خوف الہٰی سے اس کی کمر جھک گئی ہے اور قدم کمزور پڑ گئے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق نے اسے دُرّے سے ضرب لگائی اور کہا: "اللہ تجھ کو برباد کرے ہمارے دین کو بدنام اور رسوا نہ کر"۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک فقیر کو مانگتے دیکھا۔ اس کی پشت پر کھانے سے بھرا ایک تھیلا لٹک رہا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہ کھانا صدقے کے اونٹوں کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا: "اب تم جس سے چاہو سوال کر سکتے ہو"۔
شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ کچھ نوجوانوں کو دیکھا کہ بہت دھیمی چال چل رہے ہیں، اور کلام میں مسکینوں جیسا لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ پرہیزگارلوگ ہیں۔ شفاء نے یہ سن کر فرمایا: "اللہ کی قسم! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب کلام فرماتے تو بلند آواز سے کرتے تھے۔ چلتے تو جلدی چلتے، کسی کو مارتے تو زور سے مارتے، جبکہ وہ انتہائی پرہیزگار اور عبادت گزار تھے"۔

بحوالہ: سیدنا عمر فاروق کی زندگی کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, June 9, 2012

پہاڑوں کی میخیں زمین میں گڑی ہوئی ہیں:

روئے زمین کی کئی یو نیورسٹیوں میں Earth (زمین) نامی کتاب ایک بنیادی حوالے کی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے دو مصنفین میں سے ایک پروفیسر ایمریطس فرینک پریس ہیں۔ وہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے سائنسی مشیر تھے اور 12 سال نیشنل اکیڈمی آف سائنسز واشنگٹن ڈی سی کے صدر رہے۔ ان کی کتاب کہتی ہے کہ پہاڑوں کے نیچے ان کی جڑیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہ جڑیں زمین کی گہرائی میں اتری ہوئی ہیں اور پہاڑوں کے لیے ان کی حیثیت یوں ہے جیسے میخیں یا کھونٹے (Pegs) گڑے ہوں جو انھیں مضبوطی اور استحکام عطا کرتے ہیں۔ لیکن اسلام کی الہامی کتاب میں پہاڑوں کے متعلق یہ بات صدیوں پہلے بتا دی گئی کہ وہ میخوں کی طرح زمین میں گڑے ہیں، چنانچہ پہاڑوں کی مضبوطی اور "ثابت قدمی" کے سلسلے میں ارشاد باری تعالی ہے: "کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو کھونٹے نہیں بنایا؟" {ترجمہ سورۃ 78 آیۃ 6-7}۔ 

موجودہ ارضی سائنس نے ثابت کیا ہے کہ پہاڑ سطح زمین کے نیچے گہری جڑیں رکھتے ہیں اور یہ جڑیں سطح زمین پر ان کی بلندی سےکئی گنا زیادہ گہرائی میں اتری ہوئی ہیں، لہٰذا پہاڑوں کی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے مناسب ترین لفظ "کھونٹے" (Pegs) ہے کیونکہ ٹھیک طور گاڑے ہوئے کھونٹے کا بیشتر حصہ بھی زمین کی سطح کے نیچے ہوتا ہے۔سائنس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پہاڑوں کے گہری جڑیں رکھنے کا نظریہ صرف ڈیڑھ صدی پہلے 1865ء میں اسٹرانومر رائل (برطانوی شاہی فلکیات دان) سر جارج ایئری نے پیش کیا تھا جبکہ قرآن نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں بتا دی تھی۔ پہاڑ قشر(Crust of The Earth) کو مستحکم بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ زمین کے ہلنے کو روکتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: "اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے ہیں تا کہ وہ تمھیں ہلا نہ دے۔" {ترجمہ سورۃ 16 آیۃ 15}۔ 

اسی طرح زمینی پلیٹوں (Plate Tectonics) کا جدید نظریہ کہتا ہے کہ پہاڑ زمین کے لیے سٹیبلائزرز (Stabilizers) ہیں، یعنی اسے استحکام اور توازن بخشتے ہیں۔ پہاڑوں کے اس کردار کا علم عشرہ 1960ء کے اواخر میں ہوا جب زمینی پلیٹوں کا نظریہ سامنے آیا ۔ اس نظریے کے مطابق اگر پہاڑ نہ ہوں تو زمین کی سطح میں اس قدر تیزی سے تبدیلیاں آئیں کہ برا عظم ایک جگہ سے دوسرے جگہ چلے جائیں۔ کیا کوئی نبی ﷺ کے عہد میں پہاڑوں کی حقیقی شکل کے بارے میں جان سکتاتھا؟ کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ ٹھوس اور بلند و بالا پہاڑ جو آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں، در اصل زمین کے اندر بہت گہرائی میں اترے ہوئی ہیں اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں، جیسا کہ آج کے سائنسدان اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ مثلاً کوہ قاف (قفقاز) کی بلند ترین چوٹی 5642 میٹر یعنی تقریباً 5٫6 کلو میٹر اُونچی ہے مگر اسی کو قاف کی جڑیں زمین کے اندر تقریباً 65 کلو میٹر تک گڑی ہوئی ہیں۔ یوں جدید علم الارض نے قرآنی آیات کی صداقت کا اعتراف کر لیا ہے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی علمی و تحقیقی کتاب " اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Thursday, June 7, 2012

شریکِ حیات کے انتخاب میں جذبات کا احترام:


سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رشتہ کے انتخاب میں لڑکی اور لڑکے کے جذبات کا احترام کرنے کے قائل تھے اور خوبصورتی پر یقین رکھتے تھے۔ وہ عورت کے اس حق کو بھی تسلیم کرتے تھے کہ لڑکے کی طرح اسے بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ خاوند کی خوبصورتی کو دیکھے۔ آپ والدین کو اس بات سے منع کرتے تھے کہ وہ بچیوں کو بدصورت لوگوں کے ساتھ نکاح پر مجبور کریں اور فرماتے: "جس طرح تم خوبصورت بیوی کے خواہش مند ہوتے ہو، اسی طرح بچیاں بھی پسند کرتی ہیں کہ ان کا شریک حیات خوبصورت ہو"۔ 

ایک عورت اپنے خاوند کو لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی جس کے بال پراگندہ تھے۔ وہ اس سے خلع کا مطالبہ کر رہی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کے شوہر کو حمام میں نہلاؤ، اس کے ناخن تراشو اور بال بھی کاٹ دو۔ اس نئی ہیئت میں شوہر کو جب بیوی نے دیکھا تو وہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئی۔ سیدنا عمر فاروق نے اس موقع پر شخص مذکور سے اور دیگر حاضرین سے فرمایا "ان بیویوں کے لیے اسی طرح بن ٹھن کے رہا کرو، اللہ کی قسم یہ بھی چاہتی ہیں کہ تم ان کے لیے خوبصورت بن کر رہو جس طرح تم چاہتے ہو کہ یہ زیب و زینت اختیار کریں"۔

بحوالہ: سیدنا عمر فاروق کی زندگی کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Wednesday, June 6, 2012

جائز سحر محبت، مگر کیسے؟:

عورت جائز طریقے سے اپنے خاوند پر جادو کر سکتی ہے اور وہ یہ ہے:
خاوند کی خاطر ہر وقت خوبصورت بن کے رہنا، اچھی خوشبو لگانا، خاوند سامنے آئے تو مسکراہٹ اور اچھے الفاظ سے اس کا استقبال کرنا، اچھے ساتھ کا ثبوت دینا، خاوند کے مال کی حفاظت کرنا، اس کے بچوں کی خوب دیکھ بھال کرنا، خاوند جب تک اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دے، اس کی فرمانبرداری کرتے رہنا۔

لیکن اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں عجیب تضاد سا محسوس ہوتا ہے۔ عورت کو جب کسی محفل میں شرکت کرنا ہوتی ہے یا اپنی کسی سہیلی سے ملنے جانا ہوتا ہے تو خوب میک اَپ کر کے ، خوشبو لگا کر اپنے سارے زیورات پہن کر گھر سے گویا دلہن بن کر نکلتی ہے اور جیسے ہی گھر میں واپس لوٹتی ہے تو اپنا میک اَپ صاف کر دیتی ہے، زیورات اُتار دیتی ہے اور پرانے کپڑے زیب تن کر لیتی ہے اور خاوند جس نے اس کے لیے یہ سب کچھ خریدا ہوتا ہے وہ اس سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہتا ہے اور ہمیشہ اپنی بیوی کو پرانے کپڑوں میں دیکھتا ہے جبکہ اس سے پیاز اور لہسن کی بدبو پھوٹ رہی ہوتی ہے۔

اور اگر عورت میں کچھ عقل ہوتی تو ایسا نہ کرتی بلکہ اپنے خاوند کو زیب و زینت کا زیادہ حقدار تصور کرتی، سو اے میری مسلمان بہنو! تمہارا خاوند جب کام کے لیے گھر سے باہر چلا جائے تو اس کی غیر موجودگی میں گھر کے سارے کام کاج ختم کر لیا کرو، پھر غسل کر کے خاوند کی رضا کی خاطر جس سے یقیناً اللہ بھی راضی ہو گا خوب زیب و زینت اختیار کرو، چنانچہ وہ جب گھر میں واپس آئے تو اسے اپنے سامنے خوبصورت بیوی، تیار شدہ کھانا اور صاف ستھرا گھر نظر آئے تا کہ تمھارے ساتھ اس کی محبت میں مزید اضافہ ہو اور تمھارے علاوہ کسی اور پر اس کی نظر نہ پڑے، اور اللہ کی قسم یہ جائز جادو ہے جو ہر بیوی اپنے خاوند پر کر سکتی ہے۔
 
مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے جادو کے حوالے سے ایک مفید کتاب "جادو کا علاج - قرآن و سنت کی روشنی میں
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

جہاد کی برکت اور اموالِ غنیمت:

رسول اللہ ﷺ نے یہود کو خیبر سے جلاوطن کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور معاہدہ میں یہی طے بھی ہوا تھا مگر یہود نے کہا: "اے محمدؐ! ہمیں اسی سرزمین میں رہنے دیجئے۔ ہم اس کی دیکھ ریکھ کریں گے۔ کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے زیادہ اس کی معلومات ہیں۔" ادھر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے پاس اتنے غلام نہ تھے جو اس زمین کی دیکھ ریکھ اور جوتنے بونے کا کام کر سکتے اور نہ خود صحابہ کرامؓ کو اتنی فرصت تھی کہ یہ کام سر انجام دے سکتے۔ اس لیے آپ ؐ نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے حوالے کر دی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا یہود کو دیا جائے گا اور جب تک رسول اللہ ﷺ کی مرضی ہو گی اس پر برقرار رکھیں گے (اور جب چاہیں گےجلاوطن کر دیں گے) اس کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگایا کرتے تھے۔ 

خیبر کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ اسے 36 حصّوں میں بانٹ دیا گیا۔ ہر حصہ ایک سو حصوں کا جامع تھا۔ اس طرح کل تین ہزار چھ سو (3600) حصے ہوئے۔ اس میں سے نصف یعنی اٹھارہ سو حصے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے تھے۔ عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہ ﷺ کا بھی ایک ہی حصہ تھا۔ باقی یعنی اٹھارہ سو حصوں پر مشتمل دوسرا نصف، رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات و حوادث کے لیےالگ کر لیا تھا۔ اٹھارہ سو حصوں پر خیبر کی تقسیم اس لیے کی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل حدیبیہ کے لیے عطیہّ تھا، جو موجود تھے ان کے لیے بھی اور جو موجود نہ تھے ان کے لیے بھی، اور اہل حدیبیہ کی تعداد چودہ سو تھی۔ جو خیبر آتے ہوئے اپنے ساتھ دو سو گھوڑے لائے تھے۔ چونکہ سوار کے علاوہ خود گھوڑے کو بھی حصہ ملتا ہے۔ اور گھوڑے کا حصہ ڈبل یعنی دو فوجیوں کے برابر ہوتا ہے اس لیے خیبر کو اٹھارہ سو حصوں پر تقسیم کیا گیا تو دو سو شہ سواروں کو تین تین حصے کے حساب سے چھ سو ملے تھے اور بارہ سو پیدل فوج کو ایک ایک حصّےکے حساب سےبارہ سو حصے ملے۔ 

خیبر کے اموالِ غنیمت کی کثرت کا اندازہ صحیح بخاری میں مروی ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: " ہم لوگ آسودہ نہ ہوئے یہاں تک کہ ہم نے خیبر فتح کیا۔" اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا اب ہمیں پیٹ بھر کر کھجور ملے گی۔ نیز جب رسول اللہ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کر دیے جو انصار نے امداد کے طور پر انھیں دے رکھے تھے کیونکہ اب ان کے لیے خیبر میں مال اور کھجور کے درخت ہو چکے تھے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب "الرحیق المختوم
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

آخری لمحات میں رسول اللہ ﷺ کی وصیت:

معزز قارئین کرام! اللہ کے رسول ﷺ کا پیارا فرمان سن لیجئے۔ یہ فرمان ان لمحات میں ارشاد فرمایا گیا ہے جب انسان دنیا کی سرحد سے قدم اٹھائے ہوئے ہوتا ہے اور آخرت کی سرحد میں اپنا اٹھایا ہوا قدم رکھنے کو تیار ہوتا ہے۔اس موقع پر جو بات بھی کہی جاتی ہے وہ وصیت کہلاتی ہے اور اب آپ جس وصیت سے واقف ہونے والے ہیں، یہ تمام نبیوں کے آخر میں آنے والے، سب نبیوں کے امام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی وصیت ہے اور یہ اس رحمت للعٰلمین پیغمبر کی وصیت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ انتہائی شفیق اور مہربان قرار دیا ہے۔ 

تو دیکھیے اور سنیے اپنے پیارے نبی ﷺ کی وصیت جس میں ہم سب کی بھلائی کی خاطرایک بہت بڑے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے پیشگی خبردار کر دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ پر موت کی کیفیت طاری ہوئی تو آپ ﷺ اپنی چادر کو اپنے چہرے پر ڈالتے ، پھر جب گھٹن محسوس کرتے تو چادر ہٹا دیتے۔" اسی حالت میں آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔"

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "شاہراہ بہشت
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Tuesday, June 5, 2012

بلندی پر سانس کی تنگی:

جس زمانے میں قرآن نازل ہوا، لوگوں کا خیال تھا کہ جو شخص بلندی کی طرف جائےگا اسے زیادہ تازہ ہوا، زیادہ فرحت اور زیادہ خوشی حاصل ہو گی، لیکن جدید دور میں جب انسان نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور وہ تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے لگا تو اسے پتہ چلا کہ بلندی پر جاتے ہوئے نسبتاً کم آکسیجن مہیا ہوتی ہے اور سانس لینے میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ اس شدید گھٹن سے بچنے کے لیے ہوئی جہازوں میں مصنوعی آکسیجن لے جانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔

نبی ﷺ کے زمانے میں اس قدر بلندی پر جانے کا تصور تھا نہ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا، لیکن قرآن مجید میں یہ آیت ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے: "پس (یہ حقیقت ہے کہ) اللہ جسے ہدایت بخشنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ اورگھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے (بلندی کو جا رہا ہے)۔" {ترجمہ سورۃ 6 آیۃ 125}

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی علمی و تحقیقی کتاب " اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات "۔
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Sunday, June 3, 2012

حقیقی مالداری اور قناعت:

ایک خطبے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دانائی سے بھرپور مضامین بیان فرمائے، پھر انھوں نے اپنے ملفوظات کی وضاحت بھی فرمائی۔ فرمایا کہ حقیقی مالداری قناعت سے نصیب ہوتی ہے اور حقیقی غربت طمع و لالچ کا نتیجہ ہے۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے امیدیں وابستہ نہ رکھنے کا نام قناعت ہے۔ جو اس طرح سوچے گا وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پر قانع ہو گا اور جو اللہ کے دیے پر قناعت کرے گا، چاہے بظاہر وہ کم ہی ہو وہ خود کو بہرحال غنی اور مالدار سمجھے گا ۔ اس کے برعکس وہ انسان جو لوگوں کی طرف دیکھے گا اور دل میں لالچ رکھے گا اس کا ضمیر فقیر ہو جائے گا، چاہے اس کے پاس دنیا کی سب سے زیادہ دولت ہو۔ اس کا مال اسے کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اصل تونگری دل کی تونگری ہوتی ہے۔ بلاشبہ عقل سلیم تقاضا کرتی ہے کہ انسان اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ مال جمع نہ کرے، اس کی امیدیں ایسی چیز سے وابستہ نہ ہوں جو اس کی رسائی سے بہت دور ہو۔ وہ دنیا کو دارِ فنا کی نظر سے دیکھے اور اس میں موجود رعنائی اور پرکشش اشیاء کی طرف توجہ نہ دے۔

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

بارش کا میٹھا پانی اور ماحولیاتی توازن:

اللہ تعالی نے اپنے پاکیزہ کلام میں فرمایا ہے: "اور ہم نے تمھیں میٹھا پانی پلایا۔" {ترجمہ سورۃ77 آیۃ 27}۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: "بھلا بتاؤ تو! وہ پانی جو تم پیتے ہو، کیا تم نے بادلوں سے نازل کیا ہے یا ہم (اسے) نازل کرنے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری کر دیں، پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟" {ترجمہ سورۃ 56 آیۃ 68-70}

حقیقت یہ ہے کہ بارش کے پانی کا منبع آبی بخارات ہیں اور 97 فیصد بخارات نمکین یا کھاری سمندروں سے اٹھتے ہیں لیکن بارش کا پانی میٹھا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی خاص حکمت کے تحت جب سمندروں کی سطح پر سورج کی حرارت سے آبی بلبلے بنتے ہیں تو ان میں سمندری نمک کے مہین ذرات بھی شامل ہو جاتے ہیں جو آبی بخارات کے ساتھ فضا میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اگرچہ کرۂ ہوائی اس طرح ایک دن میں تقریباً 27 ملین یعنی 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن نمک جمع کر لیتا ہے مگر اس کے مقابلے میں تبخیر شدہ پانی اور زمین پر برسنے والے پانی کی بڑی کثیر مقدار میں یہ نمک بس اس قدر ہوتا ہے جو اس کو میٹھا بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے اور آبی بخارات کی نمکینی قدرت کے طے شدہ تناسب سے بڑھنے نہیں پاتی۔

 سمندر سے حاصل کردہ نمکینی کی وجہ سے بارش زمینی نباتات کے لیے کھاد کا کام بھی کرتی ہے۔ سمندری پانی میں سوڈیم کلورائڈ(خوردنی نمک) کے علاوہ فاسفورس، میگنیشیم، پوٹاشیم، تانبا، جست (Zinc)، کوبالٹ اور سیسے (Lead) کے نمکیات بھی شامل ہوتے ہیں جو نباتات کی نشونما کےلیے بہت ضروری ہیں۔ آبی بخارات میں نمکیات کے ذرات (Aerosols) اپنے ارد گردمزید بخارات جمع کر کے بارش کے قطرے بناتے ہیں۔ زمینی نباتات اور جنگلات سمندروں سے اٹھنے والے انھی ایروسولز سے پھلتے پھولتے اور خوراک حاصل کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اس طرح ہر سال 15 کروڑ ٹن کھاد پوری زمین پر گرتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوں قدرتی زرخیزی کا مسلسل اہتمام نہ ہوتا تو زمین پر سبزہ و گل کی یہ بہتات نہ ہوتی اور ماحولیاتی توازن بگڑ گیا ہوتا۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے دارالسلام پبلشرز کی علمی و تحقیقی کتاب " اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات "۔
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, June 2, 2012

بحران میں خلیفۂ وقت کا مثالی کردار:

عام الرمادہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گھی اور روٹی کا چورا بنا کر لایا گیا۔ انھوں نے ایک بدوی کو بھی اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ بدوی روٹی کے ساتھ پیالے کے کناروں سےچکنائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تو نے عرصۂ دراز سے چکنائی نہیں چکھی۔ اس نے کہا : جی ہاں! ہم نے مدت سے گھی اور تیل نہیں دیکھا۔ نہ کسی کو گھی اور تیل کھاتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ جب تک سب لوگ خوشحال نہ ہو جائیں گے، میں گوشت اور گھی نہیں کھاؤں گا۔

سب راوی اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی قسم پوری کر دکھائی ۔اس کا ثبوت یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ بازار میں گھی کا ڈبہ اور دودھ کا ایک کٹورا بکنے کیلئے آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نے چالیس(40) درہم کے عوض یہ دونوں چیزیں خرید لیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: امیر المومنین! اللہ نے آپ کی قسم کو پورا کر دیا اور آپ کو اجر عظیم سے نوازا۔ بازار میں یہ ڈبہ اور کٹورا بکنے کے لیے آیا تو میں نے آپ کے لیے یہ دونوں اشیاء چالیس(40) درہم میں خرید لیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو نے یہ چیزیں بہت مہنگی خریدی ہیں، لہٰذاان دونوں کو صدقہ کر دے۔میں نہیں چاہتا کہ کھانے میں اسراف سے کام لوں، پھر فرمایا: "(میں چاہتا ہوں کہ مجھے عام لوگوں کی حالت کا استحضار رہے) اور مجھے لوگوں کے احساسات کا اس وقت تک صحیح ادراک نہیں ہو سکتا جب تک کہ خود میرے حالات بھی انھی جیسے نہ ہوں۔"

غور فرمائیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس روشن جملے میں کتنا بڑا سبق چمک رہا ہے ۔ انھوں نے عام لوگوں کی حالت کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کے لیے جو کچھ فرما دیا ہے وہ حالت عامہ کے انعکاس کا بڑا جامع اصول ہے جس سے ساری دنیا کے دانشور ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔ 

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Friday, June 1, 2012

ہر وقت یاد رکھو!:

  • اذیتیں اور آسانیاں تمہارے لئے آزمائش ہیں۔
  • ہر اچھی یا بری چیز جسے اللہ آپ کے لئے پسند کرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے لئے ہی ہوتی ہے۔
  • جو کچھ آپ کیساتھ ہوا وہ ٹل نہیں سکتا تھا اور جو کچھ آپ سے ٹل گیا وہ آپ تک پہنچ نہیں سکتا تھا۔
  • صبر کرنا فرض ہے۔
  • انعامات صرف ان کے لئے ہوتے ہیں جو اللہ کے فیصلوں پر صبر کریں۔
  • خوف و گھبراہٹ اور بے صبری اللہ کے حکم یا فیصلہ کو روک نہیں سکتے ۔
  • شکوہ و شکایت صبر کی ضد ہے۔
  • صرف اللہ ہی نقصان سے بچا سکتا ہے اور وہی تکلیفوں کو دور کر سکتا ہے۔

بحوالہ: دنیوی مصائب و مشکلات، مطبوعہ توحید پبلیکیشنز
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

غزوۂ خندق میں دعائے نبوی:

غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نےیوں دعا فرمائی تھی:
"اے اللہ! اے کتاب کے نازل کرنے والے! اے جلد حساب لینے والے! ان لشکروں کو شکست سے دو چار کر اور انھیں ہلا کر رکھ دے۔"
آپ کی دعائے مبارک کے نتیجے میں اللہ تعالی نے زور دار آندھی بھیج دی ۔ طوفانی ہوانے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے، برتن اڑا دیے، مال مویشی بھگا دیے، چولہے جلنے ناممکن ہو گئے ۔ سکون و اطمینان ختم ہو گیا۔ آخر وہ بری طرح ناکام ہو کر واپس چلے گئے۔
اللہ تعالی نے حسب ذیل آیت قرآنی میں اسی غیر معمولی واقعے کا ذکر کیا ہے:
"اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو، جب تمہیں(کافروں کے) لشکروں نے آ لیا تھا، پھر ہم نے اُن پر آندھی اور (فرشتوں کے ) لشکر بھیجے جنھیں تم نے نہیں دیکھا، اور تم جو عمل کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔"
رسول اللہ ﷺ اس بیش بہا نعمت الٰہی کو اکثر یاد کیا کرتے اور کہا کرتے تھے:
"اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی۔ اپنے لشکر کو غالب کیا۔ اُن لشکروں کو تنہا بھگا دیا، سو اُس کے بعد کچھ نہیں"

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Thursday, May 31, 2012

مشرک کا المیہ:

شرک کرنے والے کا المیہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی باقی چیزیں دیکھی اور چھوئی جاتی ہیں اسی طرح وہ اپنے معبود کو دیکھنا اور چھونا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے وہ مزارات پر جا گرتا ہے۔ اب جو مزار جتنا زیادہ خوبصورت اور چمک والا ہو گا، وہ قبرپرستانہ ذہن کے لوگوں سے اتنا ہی زیادہ آباد اور پررونق ہو گا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان مقابر کو سجانے اور چمکانے دمکانے کی جتنی کاریگریاں ہو سکتی تھیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے عمل اور فرمان سےان سب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تا کہ "نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔"
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "اللہ کے رسول ﷺ نے قبر کو پختہ کرنے سے منع فرمایا اور اس بات سے بھی کہ اس پر مجاور بن کر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت تعمیر کی جائے۔"
ایک حدیث میں ہے: "رسول اللہ ﷺ نے قبر پر کچھ بھی لکھنے سے منع فرمایا ہے۔"
سنن نسائی کی حدیث میں ہے: "رسول اللہ ﷺ نے قبر پر عمارت بنانے اور زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔"
اسی طرح سنن بیہقی کی روایت میں ہے: "قبر پر (اس مٹی کے علاوہ) زیادہ مٹی نہ ڈالی جائے۔"

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "شاہراہ بہشت
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Wednesday, May 30, 2012

تخلیق آدم علیہ السلام احادیث کی روشنی میں:

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔ آدم علیہ السلام کی اولاد بھی (طرح طرح کی) مٹی سے پیدا ہوئی۔ ان میں سفید فام بھی ہیں، سرخ بھی اور سیاہ بھی اور ان کے درمیانی رنگوں کے بھی (اسی طرح) نیک اور بد، نرم خو اور سخت طبیعت اور درمیانی طبیعت والے۔" 

اللہ تعالیٰ نے آدمی علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا تاکہ ابلیس آپ علیہ السلام سے بڑائی کا دعویٰ نہ کرے۔ چنانچہ اس نے آپ کو انسانی صورت میں پیدافرمایا۔ آپ جمعہ کے دن جس کی مقدار چالیس سال تک تھی، مٹی کے بنے ہوئے ایک جسم کی صورت میں پڑے رہے۔ فرشتے پاس سے گزرتے تھے تو اس جسم کو دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔ ابلیس سب سے زیادہ خوف زدہ تھا۔وہ گزرتے وقت اسے ضرب لگاتا تو جسم سے اس طرح کی آواز آتی جس طرح مٹی کے بنے برتن سے کوئی چیز ٹکرائے تو آواز آتی ہے۔ اس لیے جب وہ کہتا تھا "ٹھیکری کی طرح بجنے والی مٹی سے۔" {ترجمہ سورۃ 55 آیۃ 14} تو کہتا: "تجھے کسی خاص مقصد سے پیدا کیا گیا ہے۔"وہ اس خاکی بدن میں منہ کی طرف سے داخل ہوا اور دوسری طرف سے نکل گیا اور اس نے فرشتوں سے کہا: "اس سے مت ڈرو، تمہارا رب صمد ہے لیکن یہ تو کھوکھلا ہے اگر مجھے اس پر قابو دیا گیا تو اسے ضرور تباہ کر دوں گا۔" 

جب وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے اس جسم میں روح ڈالنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے ارشاد فرمایا: "جب میں اس میں روح ڈال دوں تو اسے سجدہ کرنا۔" جب روح ڈال دی گئی تو وہ سر کی طرف سےداخل ہوئی۔ تبھی آدم علیہ السلام کو چھینک آگئی۔ فرشتوں نے کہا: کہیے: [الحمد للہ] "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں" انہوں نے فرمایا: [الحمدللہ]، اللہ نے فرمایا: [رحمک ربک] "تیرے رب نے تجھ پر رحمت فرمائی ہے۔" جب روح آنکھوں میں داخل ہوئی تو آپ علیہ السلام کو جنت کے پھل نظر آئے۔ جب روح پیٹ میں داخل ہوئی تو آپ کو کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ آپ جلدی سے جنت کے پھلوں کی طرف لپکے جب کہ روح ابھی آپ کی ٹانگوں میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "انسان تو جلد بازی کا بنا ہوا ہے" {ترجمہ سورۃ 21 آیۃ 37} (یعنی جلد بازی اس کی فطرت میں شامل ہے۔) 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایاتو جب تک چاہا، انہیں(بلاروح جسم کی حالت میں) پڑا رہنے دیا۔ ابلیس آپ کے ارد گرد چکر لگاتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ جسم کھوکھلا ہے تو اسے معلوم ہو گیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے گی۔" 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب آدم علیہ السلام میں روح ڈالی گئی اور روح سر تک پہنچی تو آپ کو چھینک آگئی۔ آپ نے فرمایا: [الحمد للہ رب العالمین] "تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔" تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [یرحمک اللہ] "اللہ تجھ پر رحمت فرمائےگا۔" 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ پھر فرمایا: جا کر ان فرشتوں کی جماعت کو سلام کہیے اور سنیے کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ تیرا اور تیری اولاد کا یہی سلام(کا طریقہ) ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: [السلام علیکم] فرشتوں نے کہا:[السلام علیک ورحمۃ اللہ ] یعنی جواب میں [رحمۃ اللہ] کا اضافہ ہو گیا۔ جنت میں جو بھی داخل ہو گا، وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر (یعنی ساٹھ ہاتھ قد کا) ہو گا۔ اس کے بعد اب تک مخلوق (کے قد کاٹھ) میں کمی ہوتی آئی ہے۔" 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ، وہ جمعہ کا دن ہے، اس دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اس دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اس دن انہیں اس سے نکالا گیا اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام جمعہ کے دن آخری گھڑی میں پیدا کیے گئے۔

بحوالہ: قصص الانبیاء، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

اللہ کا خوف اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ:

ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک سسرالی رشتہ دار آیا۔ اس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ مجھے بیت المال سے کچھ دیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا: تیرا ارادہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک خائن حکمران کی حیثیت سے پیش ہوں۔ بعد ازاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اُسےاپنے ذاتی مال سے دس ہزار (10000) درہم عطا فرمائے۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے مال سے کس قدر اجتناب کرتے تھے۔ اپنے رشتہ داروں اور اہل خانہ کو اپنے منصب اور خلافت کی مدد سے معمولی سا مال حاصل کرنے سے بھی روکتے تھے۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے اقرباء کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیتے تو خوب خوشحال رہتے اور بعد میں آنے والے بھی ایسا ہی عمل کرتے۔ اس طرح اللہ کا مال حکمرانوں کے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ جاتا۔ یہ قدرتی اور طبعی ضابطہ ہے، اسے مشاہدے کی تائید بھی حاصل ہے کہ جب ریاست کے مال پر حکمران ہاتھ صاف کرنے لگیں تو امت کا یہ مصلح فراوانی اور کشادگی کی زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف سرکاری خزانے کا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ امت کے تمام فروعی مصالح میں خلل واقع ہو جاتا ہے، خیانت کھل کر سامنے آجاتی ہے، پھر سارے کا سارا نظام ہی تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اور یہ امر متعین ہے کہ جو انسان جب تک لوگوں کے مال سے قناعت اور مکمل احتیاط کرتا ہے اور ان کے حقوق غصب نہیں کرتا، لوگ اس انسان سے محبت کرتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اور جب ایسا شخص حکمران ہو رعایا اس پر مہربان ہو جاتی ہے اور اس کی اطاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ حکمران انھیں جان سے بھی بڑھ کر پیارا ہو جاتا ہے۔

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Tuesday, May 29, 2012

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا رعب:

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے اند آنے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت نبی ﷺ کے پاس کچھ قریشی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ اتنی اونچی آواز میں گفتگو کر رہی تھیں کہ ان کی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے بلند ہو رہی تھیں۔ جب ان عورتوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو وہ جلدی سےحجاب میں چلی گئیں۔ نبی ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حاضری کی اجازت عطافرمائی۔ وہ آئےتو نبی ﷺ مسکرا رہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ آپ ﷺ کو اسی طرح خوش و خرم رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "مجھے ان عورتوں پر تعجب ہےجو ابھی میرے پاس بیٹھی تھیں۔ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے،پھر وہ عورتوں سے مخاطب ہوئےاور کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ ﷺ سے نہیں ڈرتی؟ عورتوں نے جواب دیا : ہاں، اس لیے کہ آپ تندخو اور سخت غصے والے ہیں۔ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: "خطاب کے بیٹے! کوئی اور بات کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان اس راستے پرہرگز نہیں چلتا جس راستے پر تم چلتے ہو(تمہیں دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے)۔"

اس حدیث میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی گئی ہےکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مبنی بر حق اقدامات کی وجہ سے شیطان ان تک رسائی میں ناکام رہتا ہے۔

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

ابو مسلم خولانی کی دعا:

ابو مسلم خولانی یمن کے رہنے والے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کیا مگر آپ ﷺ کی زیارت نہ کرسکے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ طیبہ تشریف لائے۔ اپنے دور کے نہایت عبادت گزار مجاہد اور مستجاب الدعوات تھے۔ ایک مرتبہ یہ مسلمانوں کی فوج کے ساتھ دجلہ کے کنارے کھڑے تھے۔ مسلمانوں نے دجلہ عبور کیا تو دریا میں طغیانی کے باعث نہ صرف کشتیوں کو نقصان پہنچابلکہ بہت سارا سامان بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ دجلہ کی لہریں مختلف اشیاء کنارے پر پھینک رہی تھیں۔ سیدنا ابو مسلم خولانی ؒ فوج سے مخاطب ہوئے اور کہا:
ہم اللہ کے بندے اور اس کے سپاہی ہیں اس کے دین کے دفاع کے لیے نکلے ہیں۔ ہمارا رب ہم پر مہربان ہے۔ وہ ہماری دعاؤں کو یقیناً سنتا ہے۔ سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر تم میں سے کسی کا کوئی سامان گم ہو گیا ہوتو مجھے بتائے میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں۔ ایک شخص کھڑا ہو ا اور عرض کیا: میرا تھیلا گم ہو گیا ہے۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے اور پھر اس شخص سے فرمایا :میرے پیچھے آؤ۔ وہ شخص آپ کے پیچھے گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا تھیلا کسی چیز کے ساتھ اٹکا ہوا دریا کے کنارے پڑا تھا۔اس نے اپنے تھیلے کو اٹھایا اور چلتا بنا۔ اللہ رب العزت نے اپنے موحد مجاہد کی دعا کو قبول فرما لیا تھا۔

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

شاہِ ایران، ذوالفقار علی بھٹو اور سونے کا گیٹ:

یہاں سے دائیں جانب بیرونی طرف ایک سونے کا دروازہ بھی نصب ہے۔ لوگ یہاں بھی بیرونی جنگلے کے ساتھ ہی چمٹ چمٹ کر آہ و زاریاں کر رہے تھے۔ میں کبھی تو اس دروازے کو دیکھتا تھا اور اس کے ساتھ لگی ہوئی سلیٹ کو دیکھتا تھا، جس کے مطابق اسے شاہ ایران نے بنوایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے یہاں نصب کیا تھا۔ ۔ ۔ شاہ ایران کو پوری دنیا میں کہیں جائے پناہ نہ ملی، وہ حکومت ایران سے جان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد دنیا میں مارا مارا پھرتا رہا اور آخر کار سسک سسک کر کینسر سے مر گیا۔ تو رہا بے نظیر بھٹو کا والد ذوالفقارعلی بھٹو، تو وہ مولوی مشتاق کی عدالت میں پھانسی کے پھندے پر چڑھ گیا۔ ۔ ۔ میں یہ غور کرتا تھا اور لوگوں کو یہاں روتے دیکھ کر سوچتا تھا ۔ ۔ ۔ کہ یا اللہ! یہ کیا چاہتے ہیں؟ شاہ ایران والا انجام چاہتے ہیں یا کہ بھٹو جیسا حال چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ بہرحال پھر دربار سے ہوتے ہوئے بائیں جانب کا رخ گیا تو دربار کے سامنے وسیع و عریض اور خوبصورت مسجد دکھائی دی۔دربار اور مسجد کا ایک ہی صحن ہے۔ مختلف جگہوں سے آئے چھوٹے درباروں کے گدی نشین کعبے کی طرف پشت کئےہوئے ۔ ۔ ۔ اور دربار کی برف منہ کیے ہوئے براجمان تھے۔ ہر ولی کے گرد مریدوں کا جم گھٹا تھا، مٹھائیوں کے ڈبے سامنے پڑے تھے، ختم پڑھا جا رہا تھا اور تبرک تقسیم کیا جا رہا تھا۔ ذرا آگے بڑھے تو ایک اور حضرت بڑے جاہ و حشمت سے آتے دکھائی دیئے۔ مریدوں نے مسند بچھائی ، حضرت براجمان ہو گئے، دو مرید دائیں بائیں دستی پنکھے سے ہوا دینے لگے اور دو سامنے مؤدبانہ انداز میں بیٹھ گئے۔ حضرت اب دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ ۔ ۔ کہ کون نیا مرید بننے کے لیے آتا ہے؟ چنانچہ لوگ آ کر بیٹھنا شرع ہو گئے۔ مرید حضرت کی شان بیان کرتے جاتے تھے، نئے بننے والے متاثر ہو کر حضرت کے آستانے کا پتا پوچھ رہے تھے، کثیر تعداد میں اپنی اپنی محفل سجا کر بیٹھے تھے۔ اب میں سوچنے لگا کہ مسجد تو مسلمانوں کی عبادت گاہ ہوتی ہے اور یہ داتا دربار بھی عبادت گاہ بن چکا ہے اور صاحب درباربزرگ کو کہا بھی داتا جاتا ہے اور یہ مسجد جو میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں تو یہ اس صاحب دربار بزرگ "داتا کی مسجد" مشہور ہے۔ دونوں کا صحن بھی ایک ہے۔ ایک طرف یہ دیکھ رہا ہوں اور دوسری طرف جب اپنے سچے نبی ﷺ کے فرامین کی طرف دیکھتا ہوں تو منظر کچھ اور ہی نظر آتا ہے، حضرت جندب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو وفات پانے سے پانچ دن قبل یہ کہتے ہوئے سنا: "خبردار! تم سے پہلے جو لوگ تھے انھوں نے اپنے نبیوں اور نیک بزرگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا ۔ خبردار! تم قبروں کو عبادت گاہ نہ بنانا، میں تمہیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہوں۔"

ہم نے یہاں دعوت کا کام بھی جاری رکھا ، ایک نوجوان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے الٹی سیدھی باتیں کر کے بھاگنے ہی کی کوشش کی۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "شاہراہ بہشت

مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

انسان کی آزمائش بقدر استطاعت:

اللہ تعالٰی نے ہر انسان کے حق میں اتنی ہی مصیبتیں اور مشکلات لکھی ہیں، جتنی اس کی استطاعت اور ایمانی قوت ہے۔ یہ ناانصافی ہوتی اگر ہر کسی کو ایک ہی جیسی مصیبت سے آزمایا جاتا اور ناکامیابی پر اسی طرح سزا دی جاتی، کیونکہ کچھ لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ صبر کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالٰی کا انصاف اور اپنی مخلوق پر مہربانی، شفقت اور رحم دلی ہے، جس کی بدولت وہ اپنے بندوں کو ان کی استطاعت کے مطابق آزماتا ہے اور اُسی کے مطابق ان کی نافرمانی کے بدلے میں انھیں سزا بھی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بار بار اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

"اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی کرے اس کا وبال بھی اس پر ہے۔"

اللہ تعالٰی کے اس انصاف پسندانہ قانون کے تحت عام علماء کرام نے صبر کو فرض قرار دیا ہے ۔ اور جب یہ بات طے شدہ ہے کہ حادثات آدمی کو اُس کی استظاعت کے مطابق ہی متاثر کرتے ہیں، تب تو اس شخص میں ضرورہی استظاعت ہو گی جس سے کہ وہ سختیوں کو برداشت کر سکے اور صبر کرنے والا بن جائے۔ اِس کے بعد اُس پر حرام ہے کہ وہ بے صبری کا مظاہرہ کرے، یا انتہائی جوش و غصہ کا مظاہرہ کرے، یا ایسی کوئی حرکت کرے یا بات کہے جس سے اللہ تعالیٰ کےفیصلہ پر ناپسندیدگی ظاہر ہو رہی ہو، جیسا کہ ہمبی دردناک چیخ، کپڑوں کا پھاڑنا، گال پیٹنا وغیرہ۔ جزاء کے دن بندے سے اس کی ہر اُس حرکت پر پوچھ گچھ ہو گی جس سے منع کیا گیا تھا اور اس سے بچنے کی بندے میں استطاعت تھی۔

بحوالہ: دنیوی مصائب و مشکلات، مطبوعہ توحید پبلیکیشنز
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Monday, May 28, 2012

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کیلئے دعائے نبوی:

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح خیبر سے ایک روز پہلے رسول اللہﷺ نے فرمایا: "کل میں جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ و رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اس کے ہاتھوں فتح عطا فرمائے گا۔"
وہ رات لوگوں نے یہ باتیں کر تے گزاری کہ دیکھتے ہیں کل جھنڈا کس خوش نصیب کو ملتا ہے۔ صبح ہوئی تو تمام لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ دریافت فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابۂ کرام نے بتایا: اللہ کےرسول! اُن کی آنکھیں خراب ہیں۔ فرمایا: اُنھیں بلواؤ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا، ان کے لیے دعا فرمائی تو وہ بھلے چنگے ہو گئے۔ گویا کبھی تکلیف تھی ہی نہیں۔ تب آپ نے اُنھیں علم عطا فرمایا۔
انہوں نے عرض کیا : "اللہ کے رسول! کیا میں اُن سے اُس وقت تک جنگ کرتا رہوں جب تک وہ ہمارے جیسے نہیں ہو جاتے"
فرمایا: "تم اطمینان سےجاؤ۔ جب اُن کے ہاں جا اترو تو انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ تعالی کے کیا کیا حقوق اُن پر عائد ہوتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر ایک شخص کو بھی اللہ تعالٰی نے تمہارے ذریعے ہدایت دے دی تو یہ تمہارے لئے اِس سے کہیں بہتر ہو گا کہ تمہیں سرخ اونٹ (قدیم عرب باشندوں کا سب سے قیمتی سرمایہ) مل جائیں۔"

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

آزمائش اور سزا میں فرق و امتیاز:

اگر مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں ہیں، جیسے جہاد میں زخمی ہونا، ہجرت کے دوران پیسوں کا گم ہو جانا، اسلام قبول کرنے کی وجہ سے نوکری کا کھو جانا، یا پھر کسی سنت رسول ﷺ پر عمل کرنے، جیسے داڑھی رکھنے اور تہبند، پتلون ، پاجامہ کے ٹخنوں سے اوپر رکھنے وغیرہ کا نتیجہ ہوں تو اس طرح کے مصائب و مشکلات ایک آزمائش ہیں، اور جو کوئی بھی صبر کے ساتھ ان چیزوں کو برداشت کرتا ہے اس اجر ملے گا اور جوکوئی اس پر ناراضی و غصے کا مظاہرہ کرے گا تو وہ اللہ کے غضب و غصہ کو دعوت دے گا۔

اگر مصیبتیں بدکاریوں کی وجہ سے ہیں، جیسے شراب نوشی اور منشیات کے استعمال سے بیماریوں میں مبتلا ہونا وغیرہ، اس طرح کی مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سزا ہے۔ ہر گناہ کے کام سے بچنے کی کوشش کریں اور اگر کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ کی طرف متوجہ ہو کر توبہ کریں اور جلد اس سے معافی مانگ لیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب بہت سخت اور ناقابل برداشت ہے۔

اگر کوئی مصیبت نہ کسی اچھے کام کا نتیجہ لگتی ہے اور نہ ہی برے کام کا ، جیسے کسی قسم کا مرض یا بیماری، بچے کا کھو جانا، کاروبار میں نقصان وغیرہ، اگرا ایسا ہے تو آپ کو اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہیے ۔ اگر آپ کسی بھی طرح سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلاء ہیں تو یہ مصیبت آپ کے لئے ایک سزا اور برائیوں کو ترک کرنے کی یاد دہانی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ تعالی نے یہ مصیبت اس لئے نازل فرمائی ہے تا کہ وہ آپ کے صبر کو آزما سکے

بحوالہ: دنیوی مصائب و مشکلات، مطبوعہ توحید پبلیکیشنز
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

شیطان آدمی کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے:

حضرت ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی نے کہا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے۔ میں رات کو آپ ﷺ کی زیارت کے لیے گئی اور آپ ﷺ سے باتیں کر کے واپس آنے لگی۔ آپ ﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لیے ہو لیے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں تھا۔ اتنے میں دو انصار کے آدمی نمودار ہوئے۔ انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو تیزی کیساتھ آگے بڑھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ٹھہرو، میرے ساتھ صفیہ ؓ ہے۔ وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں "خیال فاسد" یا فرمایا "کوئی بات" نہ ڈال دے۔
یہ حدیث صحیحین میں ہے ۔ ابو سلیمان خطابی نے کہا کہ اس حدیث میں فقہی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر ایسے امر مکروہ سے بچنا مستحب ہے جس سے بد گمانیاں پیدا ہوں اور دلوں میں خطرے گزریں۔ اور چاہیے کہ عیب سے اپنی برأت ظاہر کر کے لوگوں کے طعن سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسی بارے میں امام شافعی ؒ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کا خوف ہوا کہ کہیں ان دونوں انصاریوں کے دل میں کوئی خیال ناقص نہ آئے جس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائیں اور یہ آپ ﷺ کا فرمانا ان کی بہتری کے لئے تھا ۔ کچھ اپنے نفع کے واسطے نہیں۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے علامہ ابن جوزیؒ کی کتاب "تلبیسِ اِبلیس
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

خلیفۃ المسلمین اور نان و نفقہ:

ایک مرتبہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے کوئی میٹھا پکوان کھانے کا شوق ظاہر کیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یاد رہے کہ خلافت سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انتہائی کامیاب تاجر تھے اور ان کے ہاں بڑی آسودگی اور فارغ البالی تھی۔ خلافت کی مصروفیات کی وجہ سے چونکہ وہ تجارت میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اس لئے بیت المال سے صرف اتنا لیتے تھے جس سے بمشکل گزارہ ہو سکے۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کہنے لگیں: میں روزمرہ کے اخراجات میں کفایت شعاری کر کے اتنے پیسے بچا لوں گی کہ ہم کوئی میٹھی چیز تیار کر سکیں۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں تم ایسا کر سکتی ہو۔ کافی دن گزرنے کے بعد کچھ پیسے جمع ہوگئے جس سے کوئی میٹھی چیز تیار کی جا سکتی ہو۔ جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتا چلا تو انہوں نے وہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی اور بیت المال کے خازن سے فرمایا : میرے وظیفہ سے اس رقم کے برابر کٹوتی کر لی جائے کیونکہ اس سے کم رقم میں بھی گزارا ہو سکتا ہے۔

بحوالہ: سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Sunday, May 27, 2012

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کیلئے دعائے نبوی:

رسول اللہ ﷺ نے ایک نازک موقع پر دعا فرمائی تھی:
"الٰہی! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو آدمی تجھے زیادہ پسند ہے اُس کے ذریعے سے اسلام کو عزت عطا فرما۔"
اللہ تعالٰی نے آپ کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ‘فاروق’ کا خطاب دیا۔
امام ابن اسحاقؒ نے اپنی بے مثال کتاب ‘سیرت نبوی’ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ بیان درج کیا ہے کہ "عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام فتح کی علامت تھا ۔ اُن کی ہجرت، نصرت اور حکومت سراسر رحمت تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے پہلے ہم کعبہ میں نمازنہیں پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو قریش سے لڑ بھڑ کر کعبہ میں نماز پڑھی۔ تب ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی۔"
فتوحات اسلامیہ کا بیشتر سلسلہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پھیلا۔ فارس، فلسطین، شام اور مصر کے علاقے اُنہی کے دورِ حکومت میں فتح ہوئے۔ یوں خلافت اسلامیہ کا رقبہ سلطنت روم و فارس سے بڑھ گیا۔

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

دعاؤں کی قبولیت:

لوگ عام طور پر اس وقت کثرت سے دعائیں مانگتے ہیں جب انھیں کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے اور بلا شبہ یہ فطرت کا تقاضہ ہے مگر حدیث شریف میں جو تعلیمات ہمیں دی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ مصیبتوں اور تکلیفوں میں اللہ اس کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہیے کہ خوشحالی کے وقت کثرت سے دعا کیا کرے۔"

بحوالہ: دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »

Saturday, May 26, 2012

سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کا اولیں خطبۂ خلافت:

"حاضرین کرام! مجھے تمہارا سربراہ بنایا گیا ہے۔ میں خود کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا۔ اگر میں درست کام کروں تو میری مدد کرنا۔ اگر مجھ سے غلطی ہو جائے تو میری اصلاح کرنا۔ سچ امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور ہے حتی کہ میں اس کا حق اسے دلا دوں، ان شاء اللہ۔ تمہارا طاقتور شخص میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ میں اس سے مظلوم کا حق وصول کر لوں، ان شاء اللہ۔ جب کوئی قوم جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑ لیتی ہے تواللہ اسے ذلیل کر دیتا ہے۔ جس قوم میں بے حیائی عام ہو جائے اللہ تعالٰی ان پر عمومی عذاب نازل کر دیتا ہے۔ میری اطاعت اس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتا رہوں۔ جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں۔ اٹھو نماز ادا کرو، اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے۔"

بحوالہ: سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات، مطبوعہ دارالسلام
مزید پڑھئے اور تبصرہ کیجئے »
free counters