Saturday, June 2, 2012

بحران میں خلیفۂ وقت کا مثالی کردار:

عام الرمادہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گھی اور روٹی کا چورا بنا کر لایا گیا۔ انھوں نے ایک بدوی کو بھی اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ بدوی روٹی کے ساتھ پیالے کے کناروں سےچکنائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تو نے عرصۂ دراز سے چکنائی نہیں چکھی۔ اس نے کہا : جی ہاں! ہم نے مدت سے گھی اور تیل نہیں دیکھا۔ نہ کسی کو گھی اور تیل کھاتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ جب تک سب لوگ خوشحال نہ ہو جائیں گے، میں گوشت اور گھی نہیں کھاؤں گا۔

سب راوی اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی قسم پوری کر دکھائی ۔اس کا ثبوت یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ بازار میں گھی کا ڈبہ اور دودھ کا ایک کٹورا بکنے کیلئے آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نے چالیس(40) درہم کے عوض یہ دونوں چیزیں خرید لیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: امیر المومنین! اللہ نے آپ کی قسم کو پورا کر دیا اور آپ کو اجر عظیم سے نوازا۔ بازار میں یہ ڈبہ اور کٹورا بکنے کے لیے آیا تو میں نے آپ کے لیے یہ دونوں اشیاء چالیس(40) درہم میں خرید لیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو نے یہ چیزیں بہت مہنگی خریدی ہیں، لہٰذاان دونوں کو صدقہ کر دے۔میں نہیں چاہتا کہ کھانے میں اسراف سے کام لوں، پھر فرمایا: "(میں چاہتا ہوں کہ مجھے عام لوگوں کی حالت کا استحضار رہے) اور مجھے لوگوں کے احساسات کا اس وقت تک صحیح ادراک نہیں ہو سکتا جب تک کہ خود میرے حالات بھی انھی جیسے نہ ہوں۔"

غور فرمائیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس روشن جملے میں کتنا بڑا سبق چمک رہا ہے ۔ انھوں نے عام لوگوں کی حالت کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کے لیے جو کچھ فرما دیا ہے وہ حالت عامہ کے انعکاس کا بڑا جامع اصول ہے جس سے ساری دنیا کے دانشور ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔ 

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters