Tuesday, May 29, 2012

شاہِ ایران، ذوالفقار علی بھٹو اور سونے کا گیٹ:

یہاں سے دائیں جانب بیرونی طرف ایک سونے کا دروازہ بھی نصب ہے۔ لوگ یہاں بھی بیرونی جنگلے کے ساتھ ہی چمٹ چمٹ کر آہ و زاریاں کر رہے تھے۔ میں کبھی تو اس دروازے کو دیکھتا تھا اور اس کے ساتھ لگی ہوئی سلیٹ کو دیکھتا تھا، جس کے مطابق اسے شاہ ایران نے بنوایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے یہاں نصب کیا تھا۔ ۔ ۔ شاہ ایران کو پوری دنیا میں کہیں جائے پناہ نہ ملی، وہ حکومت ایران سے جان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد دنیا میں مارا مارا پھرتا رہا اور آخر کار سسک سسک کر کینسر سے مر گیا۔ تو رہا بے نظیر بھٹو کا والد ذوالفقارعلی بھٹو، تو وہ مولوی مشتاق کی عدالت میں پھانسی کے پھندے پر چڑھ گیا۔ ۔ ۔ میں یہ غور کرتا تھا اور لوگوں کو یہاں روتے دیکھ کر سوچتا تھا ۔ ۔ ۔ کہ یا اللہ! یہ کیا چاہتے ہیں؟ شاہ ایران والا انجام چاہتے ہیں یا کہ بھٹو جیسا حال چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ بہرحال پھر دربار سے ہوتے ہوئے بائیں جانب کا رخ گیا تو دربار کے سامنے وسیع و عریض اور خوبصورت مسجد دکھائی دی۔دربار اور مسجد کا ایک ہی صحن ہے۔ مختلف جگہوں سے آئے چھوٹے درباروں کے گدی نشین کعبے کی طرف پشت کئےہوئے ۔ ۔ ۔ اور دربار کی برف منہ کیے ہوئے براجمان تھے۔ ہر ولی کے گرد مریدوں کا جم گھٹا تھا، مٹھائیوں کے ڈبے سامنے پڑے تھے، ختم پڑھا جا رہا تھا اور تبرک تقسیم کیا جا رہا تھا۔ ذرا آگے بڑھے تو ایک اور حضرت بڑے جاہ و حشمت سے آتے دکھائی دیئے۔ مریدوں نے مسند بچھائی ، حضرت براجمان ہو گئے، دو مرید دائیں بائیں دستی پنکھے سے ہوا دینے لگے اور دو سامنے مؤدبانہ انداز میں بیٹھ گئے۔ حضرت اب دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ ۔ ۔ کہ کون نیا مرید بننے کے لیے آتا ہے؟ چنانچہ لوگ آ کر بیٹھنا شرع ہو گئے۔ مرید حضرت کی شان بیان کرتے جاتے تھے، نئے بننے والے متاثر ہو کر حضرت کے آستانے کا پتا پوچھ رہے تھے، کثیر تعداد میں اپنی اپنی محفل سجا کر بیٹھے تھے۔ اب میں سوچنے لگا کہ مسجد تو مسلمانوں کی عبادت گاہ ہوتی ہے اور یہ داتا دربار بھی عبادت گاہ بن چکا ہے اور صاحب درباربزرگ کو کہا بھی داتا جاتا ہے اور یہ مسجد جو میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں تو یہ اس صاحب دربار بزرگ "داتا کی مسجد" مشہور ہے۔ دونوں کا صحن بھی ایک ہے۔ ایک طرف یہ دیکھ رہا ہوں اور دوسری طرف جب اپنے سچے نبی ﷺ کے فرامین کی طرف دیکھتا ہوں تو منظر کچھ اور ہی نظر آتا ہے، حضرت جندب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو وفات پانے سے پانچ دن قبل یہ کہتے ہوئے سنا: "خبردار! تم سے پہلے جو لوگ تھے انھوں نے اپنے نبیوں اور نیک بزرگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا ۔ خبردار! تم قبروں کو عبادت گاہ نہ بنانا، میں تمہیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہوں۔"

ہم نے یہاں دعوت کا کام بھی جاری رکھا ، ایک نوجوان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے الٹی سیدھی باتیں کر کے بھاگنے ہی کی کوشش کی۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "شاہراہ بہشت

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters