Tuesday, May 29, 2012

انسان کی آزمائش بقدر استطاعت:

اللہ تعالٰی نے ہر انسان کے حق میں اتنی ہی مصیبتیں اور مشکلات لکھی ہیں، جتنی اس کی استطاعت اور ایمانی قوت ہے۔ یہ ناانصافی ہوتی اگر ہر کسی کو ایک ہی جیسی مصیبت سے آزمایا جاتا اور ناکامیابی پر اسی طرح سزا دی جاتی، کیونکہ کچھ لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ صبر کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالٰی کا انصاف اور اپنی مخلوق پر مہربانی، شفقت اور رحم دلی ہے، جس کی بدولت وہ اپنے بندوں کو ان کی استطاعت کے مطابق آزماتا ہے اور اُسی کے مطابق ان کی نافرمانی کے بدلے میں انھیں سزا بھی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بار بار اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

"اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی کرے اس کا وبال بھی اس پر ہے۔"

اللہ تعالٰی کے اس انصاف پسندانہ قانون کے تحت عام علماء کرام نے صبر کو فرض قرار دیا ہے ۔ اور جب یہ بات طے شدہ ہے کہ حادثات آدمی کو اُس کی استظاعت کے مطابق ہی متاثر کرتے ہیں، تب تو اس شخص میں ضرورہی استظاعت ہو گی جس سے کہ وہ سختیوں کو برداشت کر سکے اور صبر کرنے والا بن جائے۔ اِس کے بعد اُس پر حرام ہے کہ وہ بے صبری کا مظاہرہ کرے، یا انتہائی جوش و غصہ کا مظاہرہ کرے، یا ایسی کوئی حرکت کرے یا بات کہے جس سے اللہ تعالیٰ کےفیصلہ پر ناپسندیدگی ظاہر ہو رہی ہو، جیسا کہ ہمبی دردناک چیخ، کپڑوں کا پھاڑنا، گال پیٹنا وغیرہ۔ جزاء کے دن بندے سے اس کی ہر اُس حرکت پر پوچھ گچھ ہو گی جس سے منع کیا گیا تھا اور اس سے بچنے کی بندے میں استطاعت تھی۔

بحوالہ: دنیوی مصائب و مشکلات، مطبوعہ توحید پبلیکیشنز

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters