Wednesday, May 30, 2012

اللہ کا خوف اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ:

ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک سسرالی رشتہ دار آیا۔ اس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ مجھے بیت المال سے کچھ دیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا: تیرا ارادہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک خائن حکمران کی حیثیت سے پیش ہوں۔ بعد ازاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اُسےاپنے ذاتی مال سے دس ہزار (10000) درہم عطا فرمائے۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے مال سے کس قدر اجتناب کرتے تھے۔ اپنے رشتہ داروں اور اہل خانہ کو اپنے منصب اور خلافت کی مدد سے معمولی سا مال حاصل کرنے سے بھی روکتے تھے۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے اقرباء کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیتے تو خوب خوشحال رہتے اور بعد میں آنے والے بھی ایسا ہی عمل کرتے۔ اس طرح اللہ کا مال حکمرانوں کے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ جاتا۔ یہ قدرتی اور طبعی ضابطہ ہے، اسے مشاہدے کی تائید بھی حاصل ہے کہ جب ریاست کے مال پر حکمران ہاتھ صاف کرنے لگیں تو امت کا یہ مصلح فراوانی اور کشادگی کی زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف سرکاری خزانے کا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ امت کے تمام فروعی مصالح میں خلل واقع ہو جاتا ہے، خیانت کھل کر سامنے آجاتی ہے، پھر سارے کا سارا نظام ہی تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اور یہ امر متعین ہے کہ جو انسان جب تک لوگوں کے مال سے قناعت اور مکمل احتیاط کرتا ہے اور ان کے حقوق غصب نہیں کرتا، لوگ اس انسان سے محبت کرتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اور جب ایسا شخص حکمران ہو رعایا اس پر مہربان ہو جاتی ہے اور اس کی اطاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ حکمران انھیں جان سے بھی بڑھ کر پیارا ہو جاتا ہے۔

بحوالہ: سیرت عمر فاروق (جلد اول)، مطبوعہ دارالسلام

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters