Tuesday, July 31, 2012

پلنگ کے بوسے !!:

بہرحال ہم دیکھ رہے تھے کہ اب جن عورتوں کا اولاد لینا ہوتی ہے، وہ اس پلنگ کو بوسے دیتی ہیں، اس پر ہاتھ پھیر کر اپنے جسم پر پھیرتی ہیں اور بعض تو اس پلنگ کے نیچے لیٹ جاتی ہیں اور لیٹنے کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ اب بابا پیر اولاد دے گا۔ اس پلنگ کے اوپر ریشمی پردہ پڑا ہوا تھا اور پردے کے اوپر ہار لٹک رہے تھے۔ مسہری والے کمرے میں ریشمی پردے اور ہاروں کے پیچھے کونسا حسین چہرہ چھپا بیٹھا ہے! عورتیں تو یہ گھونگھٹ اٹھاتی ہیں اور پھر نیاز دیتی ہیں، سلامی دیتی ہیں۔ 

دور سے ہم نے لوگوں کو اس حسین چہرے کو بوسے دیتے ہوئے دیکھا تھا، اب ہم نے بھی آگے بڑھ کر، قریب ہو کر گھونگھٹ اٹھایا، پردہ سرکایا تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایک تصویر تھی، حضرت ولی کامل چھتن شاہ قدس سرہ اور مدظلہ العالی کی تصویر اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت مدظلہ العالی کی تصویر بالکل برہنہ تھی۔ 

جی ہاں! "ولیوں" کی یہ وہ قسم ہے کہ جنھیں مجذوب کہا جاتا ہے۔ ولایت کا بڑا بلند مقام ہے کہ اس مقام پر پہنچ کر ولی اسی طرح پاک ہو جاتا ہے کہ جس طرح بچہ مادر زاد ننگا شکم مادر سے اس دنیا میں آتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے ولی بازاروں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو یہ مجذوب اولیاء کرام کی ٹیم ہے کہ برصغیر میں اسلام پھیلانے میں ان کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اور یہ اسلام ابھی تک پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ہاں! تو حضرت چھتن شاہ کا دربار بھی فیوض و برکا ت کامنبع ہے اور یہاں اسلام خوب پھیل رہا ہے۔ ہم اس کے پھیلنے کا مزید مشاہدہ کرنے کے لئے اس مقدس حجرے سے نکلے اور بائیں جانب حضرت کے دربار کی طرف چل دیے۔ حضرت کی قبر کے جسے دربار شریف کہا جاتا ہے، اس پر کھلونا نما تین عدد پنگھوڑے پڑے تھے، جنھیں اولاد لینا ہوتی ہے، وہ حجرۂ عروسی میں ننگے بابے کی تصویر کو سجدہ کرنے اور بوسے دینے کے بعد یہاں پنگھوڑوں میں نیاز ڈالتے ہیں اور پھر اسے ہلاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس پنگھوڑے میں جو یہ نوٹ جھولے جھول رہے ہیں یہ درحقیقت مستقبل کے پیراں دتہ اور غوث بخش جھول رہے ہیں۔ اب ہم حضرت چھتن شاہ کے دربار سے نکلے تو حجروں کی طرف چل دیے۔ ایک حجرے کے اندر پہلا قدم رکھا تو دوسرا قدم رکھنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ حضرت چھتن شاہ کے ملنگوں نے ہمیں اندر آنے کا کہا مگرہم نہ جاسکے۔ کس طرح جاتے، یہ ہمارا مقام ہی نہ تھا۔ یہ مقام تو اصحاب طریقت کا ہے۔ وہ اصحاب طریقت کہ جو ولایت مجذوبیت کے مقام سے آشنا ہیں جبکہ ہم نا آشنا تھے۔ اب ہم چرس اور ہیروئن سے آشنا ہوتے تو اندر داخل ہو جاتے۔ کیونکہ یہاں تو جو پاکباز ہستیاں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہیروئن اور چرس کے کش لگا رہی تھین اور وہ جذب و مستی کی نہ جانے کن کن منزلوں اور فضاؤں میں پہنچ کر تصوف کی منزلوں پر منزلیں سر کر رہیں تھیں۔ چنانچہ ہم چھتن شاہی ولایت کے اس سیاہ ماحول میں دوسرا قدم رکھتے تو آخر کیسے؟ ہم نے تو بڑھا ہو قدم بھی پیچھے ہٹا لیا اور پھر "پکے قلعے" پر جا پہنچے۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters