Saturday, July 28, 2012

جہادی خلافت سے خانقاہی خلافت تک:

خلیفہ اور خلافت وہ الفاظ ہیں کہ جن کے رعب سے کفر کانپ جایا کرتا تھا۔ اس لیے کہ خلافت مسلمانوں کی یکجہتی کی علامت تھی اور خلیفہ پوری مسلم دنیا کا حکمران ہوتا تھا، وہ ہمہ وقت جہاد کے لیے تیار رہتا تھا۔ ۔ ۔ مگر پھر ہوا یہ کہ سبائی اور مجوسی سازش کے تحت قبروں پر خلافت قائم ہونے لگی اور قبروں کے سجادہ نشین، بادشاہ اور سید زادے شہزادگان ولایت کہلانے لگے۔ باپ کے مرنے کے بعد بیٹا قبر کا خلیفہ بننے لگا، خلافت کی اجازت سند حاصل کرنے لگا۔ یہ سند بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچا کر کہا جاتا تھا کہ انھوں نے یہ سند اللہ کے رسول ﷺ سے حاصل کی ہے۔ ولی حضرات تصوف کی ولایتیں بانٹنے لگےکہ قطب، ابدال اور غوث نے فلاں ولی کو اپنا خلیفہ بنا کر علاقے کی ولایت دے دی ہے کہ تم جا کر وہاں خانقاہ قائم کرو۔ اب اس خانقاہ میں یہ شخص مر جاتا تو اس کا دربار بن جاتا اور پھر اس کی اولاد "سید" کہلا کر قبر کی وارث بن کر شاہان ولایت بن جاتی ۔ ۔ ۔ جہادی خلفاء تو انصاف کے لیے اپنا دربار لگایا کرتے تھے مگر قبریں ، دربار اور مزار بن کر پھیلتے گئے حتٰی کہ یہ جو چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوئے، یہ اس قدر پھیلے کہ دو تین سو سال میں سارا عالم اسلام ان سے بھر گیا۔ الہٰ واحد کو ماننے والی امت قبروں کی پجاری بن گئی، خلافت کے پرچم تلے جہاد کرنے والی امت بے شمار ، ان گنت اور لاتعداد قبوری خلافتوں کی نذر ہوگئی۔ 

اس امت کا حال کس قدر بگڑ چکا تھا، اس کا اندازہ ہمیں ابن بطوطہ کے سفر نامے سے ہوتا ہے۔ کہ جب ہم اس کا سفر نامہ پڑھتے ہیں تو ابن بطوطہ جو ساری اسلامی دنیا گھومتا ہے، ہر علاقے میں جہاں بھی جاتا ہے یہ لکھتا ہے کہ میں فلاں دربار پر گیا تو خرقہ خلافت پہنا، فلاں خانقاہ پر گیا تو اس کے سجادہ نشین نے مجھے دستار فضیلت پہنائی اور فلاں مزار پر گیا تو اس کے گدی نشین نے مجھے خلعت خلافت سے نوازا۔ غرض ابن بطوطہ کے سفر نامے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہادی خلافت اب مردوں کی درباری خلافت کے شکنجے میں جکڑی جا چکی تھی اور یہ خانقاہی خلافت اس قدر اپنے پھن پھیلائے ہوئے تھی کہ یہی ابن بطوطہ جب دمشق میں جاتا ہے تو کہاتا ہے: "وہاں کی ایک جامع مسجد میں میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی ہے کہ جس کا عقیدہ سارے عالم اسلام سے منفرد ہے اور اس کے ناپسندیدہ مسائل میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتا ہے۔" 

یاد رہے یہ شخص امام احمد ابن تیمیہ ؒ تھا کہ جو ابن بطوطہ کو اچھا دکھائی نہیں دیا ۔ ۔ ۔ وہ اچھا کس طرح دکھائی دیتا کہ وہ اس قبوری خلافت کے خلاف تھا۔ اس نے اس شرک و بدعت کے خلاف چہار سو جہاد شروع کر رکھا تھا۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا زمانہ 661 تا 727 ہجری کا ہے ۔ ۔ ۔ یہ زمانہ شرک اور قبر پرستی کے عروج کا زمانہ تھا۔ چنانچہ یہی وہ دور ہے کہ جب اللہ کے عذاب کا کوڑا برسا اور چنگیز اور ہلاکو خان کی یلغار سے سارا عالم اسلام برباد ہو گیا۔ صرف دمشق اور مصر کا علاقہ ہی بچ سکا کہ جہاں ابن تیمیہ ؒ نے جہاد کیا تھا۔

مزید پڑھنے کیلئے ڈاؤن لوڈ کیجئے مولانا امیر حمزہ کی کتاب "مذہبی و سیاسی باوے

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

گزارش : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے

نوٹ: اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

free counters